Maktaba Wahhabi

182 - 452
زکوۃ و صدقات بچے کے مال میں زکوۃ سوال: ایک آدمی فوت ہوا ، اس کا بچہ بہت چھوٹا تھا اور اسے وراثت میں ڈھیروں مال ملا، کیا بچے کے مال میں سے زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے ، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔ جواب: شرعی احکام اس انسان پر لا گو ہو تے ہیں جو عاقل ، بالغ اور مسلمان ہو اور فرضیت زکوۃ کے لیے اس کا صاحب نصاب ہونا بھی ضروری ہے، بچے کے مال میں سے زکوۃ دینے یا نہ دینے کے متعلق فقہا ء کا بہت اختلاف ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق بچے کے مال میں سے زکوۃ ادا کرنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ان کے اموال میں سے آپ زکوۃ وصول کریں اس کے ذریعے انہیں پاک کریں۔ ‘‘[1] اس آیت کریمہ میں بالغ اور غیر بالغ کی کوئی قید نہیں ہے نیز زکوۃ سے مقصود غربا ء و مسا کین کا فائدہ کرنا ہے لہٰذا ان کا حصہ نکالنا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل روایات بھی بطور تائید پیش کی جا سکتی ہیں ۔ اگر چہ سند کے اعتبار سے ان میں کچھ ضعف پایا جاتا ہے۔ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی یتیم کا کفیل ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کے مال کو تجارت میں لگائے اسے یونہی نہ چھوڑے رکھے کہ اسے زکوۃ ختم کر دے ۔ ‘‘[2] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یتیموں کے اموال کو تجارت میں لگاؤ، مباداانہیں زکوۃ ختم کر دے ۔ ‘‘[3] یہ دونوں روایات اگر چہ ضعیف ہیں تاہم بطور تائید انہیں پیش کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔ زیورات کی زکوۃ سوال: میرے پاس دس تولے سونے کے زیورات تھے جو میں نے ایک گھریلو ضرورت کے پیش نظر فروخت کر دیئے ہیں، میں نے ان کی زکوۃ ادا نہیں کی تھی، اب مجھے شریعت کیا حکم دیتی ہے ۔ کتاب و سنت کی روشنی میں میری راہنمائی کریں۔ جواب: سونے کے زیورات اگر نصاب کو پہنچ جائیں تو ان میں زکوۃ واجب ہو جا تی ہے ، اگر کسی کو زکوۃ کے وجوب کا علم نہیں تھا، پھر انہیں فروخت کیا ہے تو اس صورت میں زکوۃ نہ ادا کر نے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر آپ کو اس کے وجوب کا علم تھا اور دیدہ دانستہ طور پر اس سے پہلو تہی کی ہے تو اڑھائی فیصد کے حساب سے اس کی زکوۃ ادا کی جائے اور اگر کئی سالوں سے زکوۃ ادا
Flag Counter