Maktaba Wahhabi

32 - 452
رخصتی نہیں ہوئی کہ اس کا انتقال ہو گیا۔ عورت کا مہر بھی مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ: 1 اس عورت کو حق مہر ملے گایا نہیں اگر ملے گا تو کتنا؟ 2 وہ عورت عدت وفات گزارنے کی پابند ہے یا نہیں؟ 3 اس عورت کو خاوند کے ترکہ سے حصہ دیا جائے گا یا نہیں؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جوابات دینے سے گریز کر رہے ہیں، اس کے لیے انھوں نے ایک ماہ کی مہلت طلب کی ۔ لوگ ایک ماہ تک بتکرار ان کے پاس آتے رہے اور باصرار پوچھتے رہے بالآخر بایں الفاظ جواب دیا: 1 اس عورت کو باقی خاندان کی عورتوں کی طرح مہر ملے گا، نہ اس سے کم اور نہ زیادہ ۔ 2 یہ عورت اپنے خاوند کی وفات پر عدت وفات گذارنے کی بھی پابند ہے۔ 3 اس عورت کو خاوند کے ترکہ سے حق وراثت بھی ملے گا۔ آپ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:’’اگر یہ فتویٰ درست ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ فتویٰ دینے کے بعد وہ مدینہ آئے ،مسجد نبوی میں ارباب حل و عقد سے اس کے متعلق دریافت کیا تو حضرت ابو سنان اشجعی رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کے کچھ دوسرے افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں حضرت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر نامدار حضرت ہلال بن مرہ اشجعی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہی صورت حال پیش آئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ دیا تھا جو آپ نے دیا ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اپنا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے موافق پا کر بہت خوشی ہوئی۔[1] مفتیانِ کرام کو اس منہج کی پابندی کرنا چاہیے لیکن افسوس کہ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں جاہل مفتیان منصب افتا پر فائز ہیں بلکہ بعض حضرات تو سائل کا سوال سمجھنے سے بھی قاصر ہیں لیکن انہیں مفتی کہلانے کا شوق بے چین کیے جا رہا ہے، اس سلسلہ میں اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوتے ہیں ان میں ’’فتاویٰ آن لائن‘‘ کے ساتھ جلی حروف میں یہ لکھا ہوتا ہے’’فون کریں اور مسئلہ پوچھیں‘‘ ۔ چنانچہ سودی معیشت کو فروغ دینے کے لیے اس قسم کے مفتیانِ سوء کے فتاویٰ پیش کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ نام نہاد ’’اسلامی بنکوں‘‘ سودی اداروں اور تکافل کمپنیوں کا رأس المال بھی اس قسم کے فتاویٰ ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً اسی قسم کی صورت کے متعلق پیش گوئی کے طور پر فرمایا تھا:’’اللہ تعالیٰ لوگوں کے سینوں سے علم سلب نہیں کرے گا بلکہ علماء کو فوت کر کے علم کو اٹھالے گا حتی کہ جب کسی عالم کو زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے تو ان سے سوال کیے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر انہیں فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ ‘‘[2]
Flag Counter