Maktaba Wahhabi

192 - 452
نصاب نہ ہو، اس لیے جن حضرات نے صدقہ فطر کے لیے صاحب نصاب کی شرط لگائی ہے وہ ان کی رائے تو ہو سکتی ہے لیکن شریعت کا قطعاً یہ تقاضا نہیں ہے ۔ بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس شخص کی طرف سے فطرانہ ادا کر نے کا حکم دیا ہے جس کی کفالت دوسرے کے ذمے ہو خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، غلام ہو یا آزاد، لیکن اس کا صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) ورثا کی اجازت کے بغیر صدقہ کرنا سوال: ہماری مسجد میں ایک بزرگ رہا کر تے تھے ، ان کا کھانا وغیرہ ہمارے گھر سے ہی جا تا تھا وہ بیمار ہو ئے تو میں نے اُن کا اتا پتا معلوم کرنا چاہا۔ انھوں نے بتایا کہ میرے چار بھائی، ایک بہن اور بیوی فلاں شہر میں رہتے ہیں، میں ان سے لاتعلق ہوں، وہ فوت ہو گئے تو میرے پاس ان کی بارہ ہزار روپے کی رقم امانت پڑی ہے کیا میں اس امانت کو ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ جواب: بزرگ کا رشتہ داروں سے قطع تعلقی کر کے گوشہ نشینی اختیار کرنا کوئی اچھا اقدام نہیں، اگر معاشرہ میں برائی زیادہ ہو جائے تو بھی علیحدگی اختیار کرنا ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے ، ان کے اندر رہتے ہوئے ان کی اصلاح کے لیے کوشاں رہنا ضروری تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’جو مومن لو گوں سے ملتا جلتا ہے اور ان سے ملنے والی تکلیفوں پر صبر کر تا ہے وہ اس مومن سے زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے جو لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور ان کی طرف سے آنے والی تکلیفوں پر صبر نہیں کرتا۔[1] تاہم وہ بزرگ اب فوت ہو چکے ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کر وٹ کر وٹ اپنی رحمت سے نوازے ، صور ت مسؤلہ میں بزرگ کی امانت جو بارہ ہزار روپے ہے اب وہ اس کے ورثاء کو منتقل ہو چکی ہے ، ورثاکی اجازت کے بغیر اسے صدقہ نہیں کیا جاسکتا ، اگر اس نے وصیت کی ہو تی تو ایک تہائی یعنی چار ہزار روپے تک صدقہ کر نے کی اجازت تھی ، لیکن سوال میں وصیت وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے اگر اس کے کفن دفن پر کوئی اخراجات نہیں ہوئے ہیں تو اس کی رقم اس کے ورثاء کے حوالے کر دی جائے ، چونکہ وہ لا ولد تھے اس لئے بیوہ کو ۴/۱ ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو بیویوں کے لیے ترکہ سے چوتھائی ہے۔ ‘‘[2] بارہ ہزار کا چوتھائی تین ہزار روپے بیوہ کو دے دیئے جائیں، پھر باقی ماندہ رقم چار بھائیوں اور ایک بہن میں اس طرح تقسیم کی جائے کہ ایک بھائی کو بہن سے دو گنا حصہ ملے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر اس کے کئی بھائی اور بہنیں ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے۔ ‘‘[3] اس آیت کے پیش نظر باقی نو ہزار میں سے دو دو ہزار فی بھائی اور ایک ہزار بہن کا ہے ، اگر ورثا ء رضا مند ہوں تو پوری رقم صدقہ کی جا سکتی ہے بصوت دیگر اسے صدقہ کر نے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) صدقہ فطر کی مقدار سوال: صدقہ فطر کے متعلق کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ نصف صاع بھی دیا جا سکتاہے ، جب کہ ہم تو ایک صاع ہی دیتے
Flag Counter