Maktaba Wahhabi

399 - 452
سکتی، البتہ ضروریات کے علاوہ تحفہ وغیرہ دینے میں اللہ تعالیٰ نے باپ کو پابند کیا ہے کہ وہ عدل و انصاف اور مساوات سے کام لے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم اللہ سے ڈرو اور اپنے بچوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات کرو۔‘‘[1] لیکن محبت و پیار میں کمی بیشی ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں مساوات انسانی بس میں نہیں ، اگرچہ ہمارے بعض اسلاف عدل و انصاف کے پیش نظر بچوں کو بوسہ دیتے وقت بھی برابری کا خیال رکھتے تھے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اس دوران اس کا بیٹا بھی آ گیا، اس نے اپنے بیٹے کا منہ چوما اور اسے اپنی ران پر بٹھا لیا پھر اس کی بیٹی آئی تو اس نے اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا، یہ انداز اور رویہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تو نے ان دونوں کے درمیان عدل کیوں نہیں کیا ۔ ‘‘ [2] بہر حال والدین کو کوشش کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اولاد میں محبت اور پیار کرنے میں بھی عدل و انصاف کریں اور دانستہ طور پر کسی بچے کو دوسرے پر ترجیح نہ دیں، اگر کسی وقت ایسا ہو جائے تو اس کی کسی مناسب وقت میں تلافی کر دینا چاہیے تاکہ بچوں میں باہمی نفرت و کدورت کے جذبات پروان نہ چڑھیں۔ ( واللہ اعلم) خاوند کے لئے سسرال کا احترام کرنا سوال:میرا خاوند بہت نیک اور پارسا انسان ہے لیکن میرے والدین کا احترام نہیں کرتا بلکہ انہیں برے الفاظ سے یاد کرتا ہے ، ایسا کرنے سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے، شریعت مطہرہ کی روشنی میں میرے لئے کیا حکم ہے؟ جواب: والدین کا اولاد پر احسان عظیم ہے، لیکن شادی کے بعد خاوند کی اطاعت اور فرمانبرداری بیوی پر فرض ہو جاتی ہے، خاوند کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے، خاوند کا بیوی کے والدین کو خوش رکھنا بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے۔ لہٰذا خاوند کو چاہیے کہ وہ بلا وجہ بیوی کے والدین کو سخت سست نہ کہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ تم اپنی بیویوں سے اچھے انداز کے ساتھ بود و باش اختیار کرو۔‘‘[3] اس آیت کریمہ کے پیش نظر بیوی کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا بھی شامل ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بیوی خوش ہو گی۔ خاوند کو چاہیے کہ وہ بیوی کے والدین کے ساتھ جارحانہ رویہ اختیار نہ کرے کیونکہ ایسا کرنے سے بیوی کو تکلیف ہو گی۔ بیوی کو بھی چاہیے کہ اگر اس کے والدین میں کوئی کمی کوتاہی ہے جس کی بنا پر خاوند ان سے اچھا سلوک نہیں کرتا تو اسے اپنے والدین کو اچھے انداز کے ساتھ سمجھانا چاہیے ، اس سلسلہ میں بیوی ہی اچھا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اگر والدین اپنی بیٹی کو کسی کام کا حکم دیں لیکن خاوند اس حکم کی بجا آوری پر آمادہ نہیں تو خاوند کی بات کو مانا جائے گا بشرطیکہ خاوند کی بات شریعت کے دائرہ میں ہو، لیکن اگر خاوند اپنی بیوی کو کسی ایسی بات کا حکم دیتا ہے جو شریعت کی خلاف ورزی پر مبنی ہے تو اس صورت میں خاوند کی بھی بات کو نہیں مانا جائے گا۔ ہمارے نزدیک والدین اور خاوند کے حکم میں تعارض
Flag Counter