Maktaba Wahhabi

97 - 452
معافی کا اعزاز مل جائے کیونکہ اس وقت فرشتے بھی نمازیوں کے ساتھ یہ کلمات کہتے ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے’’جس کے یہ کلمات فرشتوں کے قول کے موافق ہو گئے اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جا تے ہیں۔[1] ثالثاً: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں بیان شدہ معاملہ درج ذیل حدیث کی طرح ہے جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی، اس کے سابقہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔[2] اس حدیث کا قطعاً یہ مقصد نہیں ہے کہ مقتدی ولا الضالین نہ پڑھے بلکہ صرف آمین کہے یا امام ولا الضالین پڑھے اور آمین نہ کہے، بلکہ اس حدیث میں آمین کہنے کا وقت اور محل متعین کیا گیا ہے ۔ اس طرح درج بالا حدیث انس رضی اللہ عنہ کا مطلب ہے کہ مقتدی کو ربنا ولک الحمد اس وقت کہنا چاہیے جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہنے سے فارغ ہو جائے۔ اگرچہ امام ابو داؤد نے جناب عامر بن شرجیل کا موقف بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ لو گوں کو امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ نہیں کہنا چاہیے بلکہ وہ صرف ربنا ولک الحمد کہیں [3]لیکن ان شا اللہ پہلی بات ہی راجح اور عموم احادیث کے مطابق ہے۔ چنانچہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں کہ مقتدی ، امام کے ساتھ سمع اللہ لمن حمدہ کہنے میں شریک نہ ہو، جیسا کہ اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہو تا کہ امام ، مقتدی کے ساتھ ربنا ولک الحمد نہ کہے، کیونکہ یہ حدیث اس بات کو بیان کرنے کے لیے نہیں لائی گئی کہ اس موقع پر امام اور مقتدی کیا پڑھیں بلکہ حدیث کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مقتدی کا ربنا ولک الحمد کہنا امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد ہونا چاہیے ۔ اس بات کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام ہونے کے حالت میں بھی ربنا لک الحمد کہتے تھے۔ اس طرح حدیث ’’صلو ا کما رأیتمونی‘‘کا بھی تقاضا ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح سمع اللہ لمن حمدہ کہے۔[4] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید لکھا ہے کہ جو اس مسئلہ میں زیادہ معلومات چاہتا ہے اسے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ ’’دفع التشنیع فی حکم التسمیع‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے جو الحاوی للفتاویٰ ص۵۲۹،ج۱ میں ہے۔ (واللہ اعلم) ہم بطور تائید یہ حدیث بھی پیش کر تے ہیں جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے جب آپ سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تومقتدی بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہتے، اگرچہ امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے کہ حدیث کے یہ الفاظ ثابت نہیں ہیں۔[5] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’صفۃ الصلوٰۃ‘‘ میں اس مسئلہ پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ [6] دوران نماز سلام کا اشارہ سے جواب دینا سوال: ہمارے ہاں دوران نماز تکبیر تحریمہ کے بعد سلام پھیرنے تک آنے والے نمازیوں کی طرف سے سلام کہنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ایسی صورت حال کے پیش نظر نمازی کیا طریقہ اختیار کرے، کیا وہ پوری نماز میں مسلسل اشارے سے سلام کا جواب دینے میں لگا رہے ، کیا اس سے نمازی کا خشوع متاثر نہیں ہوتا، کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کے متعلق ہماری راہنمائی فرمائیں۔
Flag Counter