Maktaba Wahhabi

96 - 452
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ حج یا عمرہ کرنے والے کے لیے اہتمام کے ساتھ مسجد نبوی میں چالیس نمازیں ادا کرنے کی پابندی خودی فقہ ہے، اس سلسلہ میں جو حدیث پیش کی جا تی ہے اس کی استنادی حیثیت انتہائی مخدوش ہے۔ بہر حال حج یا عمرہ کرنے والے کو چاہیے کہ وہ مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کو باعث سعادت خیال کرے کیونکہ وہاں ایک نما ادا کرنے سے ایک ہزار نماز کے برابر اجر ملتا ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ لیکن آٹھ دن وہاں مسلسل رہنے کی پابندی کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ (واللہ اعلم) مقتدی کا سمع اللہ لمن حمدہ کہنا سوال: جب امام رکوع سے فراغت کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ کہتا ہے تو کیا مقتدی کو بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہنا چاہیے یا وہ صرف ربنا ولک الحمد پر اکتفا کرے گا، کتاب و سنت کی روشنی میں اس امر کی وضاحت کریں۔ ہمارے ہاں اہل علم کا کچھ اختلاف ہے، راجح موقف کی نشاندہی کردیں۔ جواب: محدثین کی اصطلاح میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کو تسمیع اور ربنا ولک الحمد کو تحمید کہا جا تاہے ۔ عام طور پر نمازی کی تین حالتیں ہو تی ہیں: امام ، مقتدی اور منفرد ، محدثین کا موقف ہے کہ امام ، مقتدی اور منفرد تینوں حضرات تسمیع اور تحمید میں شریک ہوں ۔ احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ علامہ شوکانی نے امام شافعی،امام مالک، عطا بن ابی رباح، ابو داؤد، ابو بر دہ، محمد بن سیرین، اسحاق بن راھویہ اور امام داؤد رحمۃ اللہ علیہم کا یہی موقف بیان کیا ہے۔ [1] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: امام اور مقتدی جب رکوع سے سر اٹھائیں توکیا کہیں ۔ [2] پھر آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو اللھم ربنا ولك الحمد بھی کہتے ۔[3] ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کہتے پھر جب رکوع کر تے تو اللہ اکبر کہتے، رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو جب سیدھے کھڑے ہو جاتے تو ربنا ولک الحمد کہتے۔[4]البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو۔[5]اس حدیث سے بعض حضرات نے استنباط کیا ہے کہ مقتدی کو سمع اللہ لمن حمدہ نہیں کہنا چاہیے ،لیکن یہ استنباط کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے۔ اولاً: اس استنباط کا مطلب یہ ہے کہ امام کو ربنا ولک الحمد نہیں کہنا چاہیے ، حالانکہ ایسا کرنا صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ ثانیاً:اس حدیث کا قطعاً یہ مقصد نہیں ہےکہ اس موقع پر امام اور مقتدی کو کیا کہنا چاہیے بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ مقتدی ربنا ولک الحمد کب کہے یعنی وہ امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد ربنا ولک الحمد کہے تاکہ یہ کلمات اس وقت کہنے سے گناہوں سے
Flag Counter