Maktaba Wahhabi

170 - 452
نے انہیں اس معروف دعا کی تعلیم دی جو قبرستان کی زیارت کے موقع پر پڑھی جاتی ہے۔[1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتیں بھی قبروں کی زیارت کر سکتی ہیں، تاہم عورتوں کا ضبط و صبر بہت کم ہوتا ہے اس لئے یہ اجازت دو شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ 1 کبھی کبھار جائیں، ہر روز جانے سے اجتناب کریں۔ 2 ٹولیوں کی شکل میں نہ جائیں۔ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( زوارات ) ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت سے قبرستان جاتی ہیں۔ [2] زوارات کے مفہوم میں ’’ باجماعت ‘‘ جانا بھی شامل ہے کیونکہ ان میں جزع فزع زیادہ ہوتا ہے، خطرہ ہے کہ مبادا وہاں کوئی خلاف شرع کام کر لیں۔ بہر حال عورتوں کے لئے زیارت قبور کی ممنوعہ صورتیں حسب ذیل ہیں: 1 جن عورتوں کے متعلق یقین ہو کہ وہاں جا کر چیخ و پکار یا نوحہ خوانی یا چراغاں کریں گی ، انہیں قبرستان جانے سے منع کر دیا گیا ہے۔ 2 جو عورتیں قبروں کو سجدہ کرتی، اور اہل قبور سے طلب حاجات کرتی ہیں تو یہ کام بھی باعث لعنت ہے، اس سے خود بچنا اور بچانا ضروری ہے۔ 3 جب عورتیں کسی خاص دن کو زیارت قبور کے لئے مقرر کر لیں، مثلاً دس محرم یا شعبان کی پندرہویں وغیرہ تو ایسے حالات میں بھی ان پر قبرستان جانے کی پابندی ہونی چاہیے۔ 4 اسی طرح جب عورتیں زیب و زینت سے مزین اور بے پردہ ہوں تو ایسے حالات میں بھی انہیں قبر ستان جانے کی اجازت دینا فتنہ و فساد کو دعوت دینا ہے ۔ مذکورہ بالا چار صورتوں کو خلاف شرع ٹھہرانا چاہیے اور انہیں قبرستان جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور اگر ان کاموں سے اجتناب کریں اور کبھی کبھی اپنے کسی محرم کے ساتھ قبرستان جائیں تو جائز ہے ، کیونکہ زیارت قبور کی جو عمومی رخصت ہے اس میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ ( واللہ اعلم) جنازے میں تاخیر سوال:کیا رشتہ داروں کے انتظار میں جنازہ میں دیر کی جا سکتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ باہر سے آنے والے رشتہ داروں کی وجہ سے جنازہ پڑھنے میں بہت دیر کی جاتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: مرنے والے کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں دیر نہ کی جائے بلکہ جلدی کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جنازہ میں جلدی کرو، میت اگر نیک ہے تو اسے خیر کی طرف لے جا رہے ہو اور میت اگر اس کے سوا کچھ اور ہے تو تم شر کو اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو۔ ‘‘[3]
Flag Counter