Maktaba Wahhabi

183 - 452
نہیں کی تو مارکیٹ میں سونے کی قیمت کے حساب سے ان زیورات سے زکوۃ ادا کرنا ہو گی اور اگر اس کے وجوب کا علم آخری سال ہوا پھر انہیں فروخت کر دیا اور زکوۃ ادا نہیں کی تو ایک سال کی زکوۃ ادا کر دی جائے۔ ان کی زکوۃ آپ خواہ ادا کریں یا آپ کے مشاورت سے آپ کا خاوند اپنی گرہ سے دے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کا بھائی، باپ اور بیٹا بھی آپ کی اجازت سے زیورات کی زکوۃ ادا کر سکتا ہے، بہر حال اس فرض کی ادائیگی ضروری ہے خواہ آپ خود ادا کریں یا آپ کی اجازت سے کوئی دوسرا ادا کر دے ، مسئلہ کی نوعیت یکساں رہے گی۔ (واللہ اعلم) صدقہ فطر میں قیمت ادا کرنا سوال: ہمارے ہاں غرباء کی ضرورت کے پیش نظر فطرانہ کی قیمت ادا کر دی جا تی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے دور میں فطرانہ کی قیمت ادا کرنا ثابت نہیں ہے بلکہ اس وقت فطرانہ میں جنس ہی ادا کی جا تی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ کا مقصد ’’طمعۃ للمساکین‘‘ (مساکین کی خوراک) ٹھہرایا ہے، اس کا بھی تقاضا ہے کہ فطرانہ میں اشیا ء خوردنی ادا کی جا ئیں، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم صرف جنس ہی سے فطر انہ ادا کر نے کے قائل ہیں۔ محدثین کرام میں سے کسی نے بھی اس بات کی صراحت نہیں کی ہے جس سے پتہ چلتا ہو کہ فطرانہ میں قیمت بھی دی جا سکتی ہے بلکہ محدث ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے قیمت ادا کر نے کے خلاف عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ، ص ۸۹، ج ۴) محدث العصر علامہ عبید اللہ رحمانی لکھتے ہیں کہ صدقہ الفطر کی قیمت نہ دی جائے بلکہ جنس سے ہی ادا کیا جائے البتہ کسی عذر کے پیش نظر قیمت دی جا سکتی ہے ۔ [1] عذر کی صورت یوں ہو سکتی ہے کہ ایک شخص روزانہ بازار سے آٹا خرید کر استعمال کر تا ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ با زار سے غلہ خرید کر صدقہ فطر ادا کرے ، بلکہ اسے چاہیے کہ بازار کے نرخ کے مطابق اس کی قیمت ادا کر دے۔ مال زکوۃ دوسرے شہر میں صرف کرنا سوال: ہمارے ہاں اکثر مدارس کے لیے سفیر حضرات مال زکوۃ اکٹھا کر تے ہیں ، کیا زکوۃ کے حقدار مقامی فقراء ہیں یا انہیں دوسرے شہروں کے مستحقین پر بھی صرف کیا جا سکتا ہے ؟ جواب: بہتر یہ ہے کہ جس علاقے سے زکوۃ وصول کی جائے ، اسی علاقہ کے فقراء میں تقسیم کر دی جا ئے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’زکوۃ اغنیاء سے وصول کر کے وہاں کے محتاجوں پر تقسیم کر دی جائے ۔ ‘‘[2] تاہم ضرورت و مصلحت کے پیش نظر کسی دوسرے شہر میں بھی مال زکوۃ صرف کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں مدارس کے لیے زکوۃ وصول کی جا تی ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’ مالداروں سے زکوۃ وصول کی جائے اور فقرا ء پر خرچ کر دی جائے خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔‘‘ [3]
Flag Counter