Maktaba Wahhabi

31 - 452
ہی وہ اس قدر مجبور ہے کہ اس کا سر پرست جب چاہے جہاں چاہے اس کا عقد کر دے اور وہ مجبور ہو کر خاموش رہے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے ایک تیسرا عنوان بایں طور قائم کیاہے: ’’جب کوئی اپنی بیٹی کا زبردستی نکاح کردے تو ایسا نکاح مردود ہے ۔ ‘‘[1] پھر اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے ایک حدیث لائے ہیں: ’’خنساء بنت خدام کا نکاح اس کے باپ نے اس کی مرضی کے بغیر کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو مسترد کر دیا۔‘‘[2] دراصل شریعت کا منشا یہ ہے کہ لوگوں کو سہولت دیتے وقت اعتدال کو قائم رکھا جائے ۔ اب ہمارے مجتہدین کرام کو دیکھیے کہ ایک طرف تو انھوں نے بالغہ لڑکی کو مطلق العنان کر دیا کہ وہ جس سے چاہے ، جب چاہے اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو یہ حضرات اس قسم کے نکاح کو تحفظ دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ حال ہے کہ اگر کوئی شخص دھوکہ اور فریب سے ایجاب و قبول کے الفاظ کہلوالے جنہیں عورت نہ سمجھتی ہو تو بھی وہ قید نکاح میں آ کر بے اختیار ہو جاتی ہے۔ بہر حال مفتی کو چاہیے کہ وہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے لوگوں کو جس قدر سہولت کی گنجائش ہو اپنے فتویٰ میں اس کا ضرور اہتمام کرے ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو تبلیغ کےلیے بھیجتے وقت فرمایا تھا: ’’لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا اور انہیں تنگی سے دو چار نہ کرنا۔‘‘[3] مفتی کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لے بلکہ طویل بحث تمحیص، تلاش و جستجو اور مکمل جد و جہد کے بعد اطمینان ہونے پر فتویٰ دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلم الناس ہیں، انھوں نے بھی متعدد سوالات کا جواب دینے میں طویل سکوت اختیار فرمایا اور وحی الٰہی کا انتظار کیا جو امت کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ امام بخاری نے اس سلسلہ میں اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی چیز کے متعلق سوال کیا جاتا، جس کے متعلق وحی نہ اتری ہوتی تو آپ فرماتے: میں نہیں جانتا یا وحی اتر نے تک خاموش رہتے اور کچھ جواب نہ دیتے۔‘‘[4] اس موضوع پر ہم نے فتاویٰ اصحاب الحدیث کی تیسری جلد کے مقدمے میں تفصیل سے لکھا ہے ، امثلہ اورشواہدسے امام بخاری کے بیان کردہ موقف کو ثابت کیا ہے۔ اس لیے اس بحث کا وہاں ضرور مطالعہ کیاجائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام بھی اسی منہج پر کاربند تھے کہ وہ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو فے میں مقیم ہیں، اُن کے پاس ایک استفتاء آیا کہ ایک شخص نے کسی خاتون سے نکاح کیا ہے، ابھی
Flag Counter