Maktaba Wahhabi

242 - 452
خرید و فروخت قسم اٹھا کر مال فروخت کرنا سوال: میرے ایک دوست کی عادت ہے کہ وہ قسم اٹھا کر اپنا مال فروخت کر تا ہے ، کیا اس کی کمائی حلال ہے ، میں اس کے ہاں کھا پی سکتا ہوں، وضاحت فرمائیں۔ جواب: کاروبار میں قسم اٹھا کر سود ا فروخت کرنا بہت مذموم حرکت ہے، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے، چنانچہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تجارت میں بہت زیادہ قسمیں اٹھانے سے اجتناب کرو کیونکہ قسم اٹھانے سے سودا تو فروخت ہو جا تا ہے لیکن اس کی برکت ختم کر دی جاتی ہے۔ ‘‘[1] قسم اٹھا کر کمائی کر نے سے اگرچہ برکت اٹھا لی جا تی ہے تاہم وہ حرام نہیں ہو تی، اسے استعمال میں لانا جائز ہے۔ اس کے حصول کا گناہ اپنی جگہ پر رہے گا تاہم وہ کمائی حلال ہے بشرطیکہ اس میں اور کوئی خرابی نہ ہو، ایسے آدمی کو وعظ و نصیحت کے ذریعے زیادہ قسمیں اٹھانے سے باز رکھنا چاہیے۔ مجبوری کے وقت سودی قرض سوال: میرے والد گرامی جیل میں ہیں، ان کی رہائی کے لیے ایک لاکھ روپیہ درکار ہے، اگر یہ رقم نہیں دی جا تی تو مزید دو سال قید بڑھ سکتی ہے ، میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے اور مجھے کوئی قرض بھی نہیں دیتا ، ایک شخص اس شرط پر قرض دینے کے لیے تیار ہے کہ تین سال کے بعد اسے دو لاکھ واپس کیے جائیں، کیا اس قسم کی مجبوری کے پیش نظر سود پر قرض لیا جا سکتا ہے؟ جواب: سودی کاروبار یا لین دین اس قدر سنگین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کام کر نے والے کو سخت وارننگ دی ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر تم اس سودی لین دین سے باز نہیں آؤ گے تو پھر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ‘‘[2] اور احادیث میں سود لینے اور دینے کو اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کر نے کے مترادف قرار دیا گیا ہے لہٰذا ایک مسلمان کے لیے صلی اللہ علیہ وسلم بہتر یہی ہےکہ وہ اسے کسی صور ت میں اختیار نہ کرے ، صورت مسؤلہ میں کوئی ایسا عذر نہیں جس کی بنیاد پر سود پر قرض لینے کو جائز قرار دیا جائے، جان بچانے کے لیے مر دار کھانے کی اجازت قرآن نے دی ہے ، لیکن صورت مسؤلہ کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔
Flag Counter