Maktaba Wahhabi

288 - 452
اس مکان میں سے نصف میری بیوہ کو دے دیا جائے، کیا یہ وصیت جائزہے ؟نیز ہم تین بھائی اور دو بہنیں زندہ ہیں۔ جواب: اسلام کے قوانین بتدریج پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں، دور جاہلیت میں میت کا تمام مال ااس کی بیوی اور اولاد بلکہ خاص بیٹوں کو ملتا تھا۔ والدین اور دیگر اقارب محروم رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وصیت کا قانون اتارا کہ اگر مر نے والا مال وغیرہ چھوڑ کر جا رہا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے والدین اور دیگر اقارب کے لیے وصیت کر کے جائے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’جب تم میں سے کسی کی موت قریب آئے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے لیے انصاف کے ساتھ وصیت کرے بشر طیکہ اس نے مال وغیرہ چھوڑا ہو۔ [1] اس وقت وصیت کرنا فرض تھا، لیکن اس وصیت کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کو نقصان پہنچا دیتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں آیت میراث نازل فرمائی اور اس کے ذریعے تمام ورثا کا حصہ متعین کر دیا۔ اس آیت کے ذریعے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا گیا اور وارث کے حق میں وصیت کو منسوخ کر دیا گیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر اعلان فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، اب وصیت کے ذریعے کسی وارث کو کچھ بھی نہیں دیا جا سکے گا۔ ‘‘[2] البتہ جن ورثا کو اس کی جائیداد سے حصہ نہیں ملتا ان کے حق میں جائز طور پر وصیت کی جا سکتی ہے۔ صورت مسؤلہ میں اللہ تعالیٰ نےخاوند کی جائیداد سے بیوی کا حصہ دیا ہے لہذا اس کے لیے وصیت کے ذریعے کوئی مال دینا نا جائز ہے۔ اس بنا پر مر نے والے نے جو بیوی کے متعلق وصیت کی ہے وہ کالعدم ہے ۔ اب اسے بارہ لاکھ میں سے چوتھا حصہ تین لاکھ ملیں گے کیونکہ مر نے والا اس کا خاوند لا ولد ہے باقی نو لاکھ روپیہ تین بھائیوں اور دو بہنوں میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ ایک بھائی کو بہن سے دو گنا حصہ ملے۔ سہولت کے پیش نظر نو لاکھ روپے کو آٹھ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک حصہ ایک لاکھ بارہ ہزار پانچ صد روپیہ ہے جو میت کی ایک بہن کو ملے گا اور اس کا دو گنا دو لاکھ پچیس ہزار روپیہ ایک بھائی کو دے دیا جائے۔ بیوی کو اس کے حصے کے علاوہ وصیت کے ذریعے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ اس کے حق میں وصیت کالعدم ہے۔ حق وراثت سوال:خاوند نے اپنی بیوی کو طلاق دی ، بیوی ابھی دوران عدت تھی کہ خاوند وفات پا گیا ، کیا اس بیوی کو خاوند کی جائیداد سے حصہ ملے گا، نیز کتنا حصہ دیا جائے گا کیونکہ بیوی کی اولاد نہیں جبکہ خاوند کی دوسری بیوی سے اولاد موجود ہے کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب: اس کا جواب دینے سے قبل دو بنیادی باتیں حسب ذیل ہیں : 1 اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کو پہلی یا دوسری طلاق دیتا ہے تو عدت کے ختم ہو نے تک وہ اس کی بیوی ہی رہتی ہے۔ عدت کے ختم ہوتے ہی رشتہ ازدواج ختم ہو جا تا ہے، محض طلاق دینے سے میاں بیوی کا تعلق ختم نہیں ہو تا۔ 2 میاں بیوی کی وراثت کے سلسلہ میں ہو نے والے کی اولاد کو دیکھا جا تاہے ، اولاد ہو نے کی صورت میں حصہ کم اور اولاد نہ
Flag Counter