Maktaba Wahhabi

401 - 452
لیکن اس سلسلہ میں خاوند کی مالی حیثیت کو ضرور مد نظر رکھا جائے گا، اس لئے بیوی کو یہ حق نہیں کہ مطالبات میں کثرت کے ذریعے اسے مشکلات میں ڈالے ، خاوند کے ذمے صرف اسی حساب سے خرچ کرنا واجب ہے، جس قدر اس کی طاقت اور ہمت ہے۔ جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’’ کشادگی والے کواپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے ، اس میں سے خرچ کرے ، اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ ‘‘[1] بیوی کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ خاوند کو بے جا قسم کے مطالبات کے ذریعے تنگ کرنا تباہی کا راستہ ہے۔ اس سلسلہ میں ہم ایک حدیث بطور نصیحت ذکر کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بنی اسرائیل کی ابتدائی ہلاکت یہ تھی کہ تنگ دست کی بیوی اسے لباس یا زیورات لانے کی اتنی تکلیف دیتی تھی جتنی مالدار خاوند کی بیوی اپنے خاوند کو دیتی تھی۔ ‘‘ [2] اس حوالے سے ہم خاوند کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو زہد و قناعت کی تلقین کرتا رہے اور حسب توفیق خرچ کرنے میں بخل سے کام نہ لے اور اس سے یہ وعدہ کرے کہ اللہ تعالیٰ جب کشادگی فرمائے گا تو مطالبات کو بھی پورا کر دیا جائےگا۔ ‘‘  ( واللہ اعلم) نیوتا کی شرعی حیثیت سوال:ہمارے ہاں شادی کے موقع پر لین دین اور تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے لیکن دل میں یہ ہوتا ہے کہ آئندہ ایسے موقع پر مجھے بھی دیا جائے، ایسے حالات میں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: شادی کے موقع پر طبعی خوشی ہوتی ہے اور تحفے تحائف کا تبادلہ طبعی خوشی کا حصہ ہے ، شریعت میں اس کی ممانعت نہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق ایسے موقع پر تحائف وغیرہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ، ایک یہ ہے کہ تعاون کی نیت ہوتی ہے اور ایسا کرنے سے غریب آدمی کو کچھ سہارا مل جاتا ہے، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں بشرطیکہ دینے والا صرف تعاون یا تحفے کی نیت سے دے اور واپسی کی نیت نہ ہو ۔ ایسے موقع پر تحائف دینے کی دوسری صورت یہ ہے کہ تعاون سے بڑھ کر ایک سودی قرض کی صورت اختیار کر جائے جیسا کہ بالعموم ہمارے ہاں ہوتا ہے، دینے والا اس نیت سے دیتا ہے کہ اگر میں آج سو روپیہ دوں تو کل میرے بیٹے یا بیٹی کی شادی پر اس سے دوگنا یا ڈیڑھ گنا مل جائے گا اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یوں تعاون کے بجائے ایک سودی ذہنیت بن گئی ہے، اس کا نام تحفہ یا سلامی رکھا جاتا ہے، لہٰذا اس رواج کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ شادی کے موقع پر اس قسم کے تحائف کے تبادلہ کو یکسر بند کر دیا جائے جو نیوتا کا نام بدل کر وصول کئے جاتے ہیں، ہاں اگر شادی سے پہلے غریب کے ساتھ تعاون کر دیا جائے یا اسے قرض حسنہ آسان شرائط کے ساتھ دے دیا جائے تو اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں، لیکن ہمارے ہاں موجودہ صورت حال کو تحائف کی آڑ میں جائز قرار دینا انتہائی محل نظر ہے۔ ( واللہ اعلم)
Flag Counter