Maktaba Wahhabi

258 - 452
ہوتے ہیں اور حکومتی بینک کے ساتھ انہیں روزانہ کاروبار اور لین دین کرنا پڑتا ہے نیز ذیلی بینک، حکومتی بینک کو بھاری رقم پُر کشش اور بھاری شرح سود پر فراہم کر تے ہیں ۔ اس کے علاوہ حکومتی بینک کا تعلق ورلڈ بینک (عالمی بینک ) سے ہوتا ہے، تمام حکومتی بینک ، ورلڈ بینک کے ممبر اور اس کے ما تحت ہوتے ہیں اور اسے بھاری سرمایہ، بھاری شرح سود پر دیتے ہیں۔ اسی طرح ورلڈ بینک سے جو سود ملتا ہے وہ حکومتی بینک کی وساطت سے حصہ ، رسدی کے طور پر پاکستان کے تمام ’’اسلامی‘‘ اور غیر اسلامی بینکوں کو پہنچ جاتا ہے ۔ بینک کے معاملات کی یہ مختصر وضاحت ہے ، ایسے حالات میں کسی بھی نوعیت کی ملازمت کرنا جائز نہیں۔ خواہ ملازمت کے وقت یہ شرط ہی کیوں نہ کر لی جائے کہ ملازم بینک کے دیگر غیر شرعی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا اور نہ ہی اس سے کوئی ناجائز پرافٹ حاصل کرے گا۔ ایک مسلمان اس امر کا پابند ہےکہ وہ اس عالم رنگ و بو میں زندگی کے چند روز گزارنے کے لیے ایسی حلال، صاف ستھرے اور پاکیزہ کمائی استعمال کرنے کا اہتمام کرے جس پر کسی قسم کی حرام کاری کا داغ دھبہ لگا ہوا نہ ہو۔ شریعت نے ہمیں ایسی مشتبہ قسم کی چیزوں کے ارد گرد گھومنے سے بھی منع کیا ہے جو بالآخر ایک مسلمان کو حرام اور ناجائز کھائی میں گرا دینے کا باعث ہوں۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ تم ایسی چیز کو اختیار کرو جس کے متعلق کسی قسم کے شک و شبہ کا داغ دھبہ نہ ہو اور جو چیز تمہیں شکوک و شبہات میں ڈال دے اسے چھوڑ دو۔ ‘‘[2] ان احادیث کے پیش نظر ہمارا رجحان یہ ہےکہ بینک اسلامی ہو یا غیر اسلامی اس میں ملازمت کرنے سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ بینک سودی کاروبار سے محفوظ نہیں ہیں۔ (واللہ اعلم) بینک کی ATM مشین درست کرنا سوال: ایک شخص بینک میں کاروبار نہیں کرتا لیکن( ATM )مشین کے ٹیکنیکل نقص دور کرتا ہے اور اس پر اجرت وصول کرتا ہے ، اس کام اور اس پر ملنے والے اجرت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: بینک اپنے صارفین کو بہت سی سہولیات فراہم کرتا ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ایک کارڈ کے ذریعے جب چاہے ATM مشین سے ایک خاص مقررہ حد تک بوقت ضرورت رقم حاصل کر سکتا ہے ۔ اس مشین کے ذریعے رقم حاصل کرنا اگرچہ سودی کاروبار سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتا تاہم بینک کا ایک حصہ ضرور ہے۔ اس معاملے میں ہمارا رجحان یہ ہےکہ اس مشین کی خرابی دور کرنے میں چنداں حرج نہیں اور اس کی اجرت لینا بھی جائز ہے لیکن جو چیز باعث خلش ہے ہے وہ یہ کہ مزدری ، سودی کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم سے ہی ادا کی جائے گی جو حلال اور پاکیزہ نہیں۔ اس لیے تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ اس طرح کا ہنر پیشہ چھوڑکر انسان کوئی دوسرا ہنر سیکھ لے اور اسے اپنا ذریعہ معاش بنا لے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو کوئی اللہ سے ڈرے گا تو وہ اس کے رنج و غم سے نجات کے لیے کوئی صورت پیدا کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق
Flag Counter