Maktaba Wahhabi

391 - 452
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فیصلہ میں قرض کی دائیگی کو تکمیل وصیت پر مقدم رکھا ہے۔[1] میت کے قرض کی ادائیگی کس قدر ضروری ہے اس کی اہمیت کا اس حدیث سے پتہ چلتا ہے : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مومن کی جان اس کےذمے قرض کے ساتھ لٹکی رہتی ہے، حتیٰ کہ اسے ادا کر دیا جائے۔ ‘‘[2] اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میت کے ذمے قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اسے جنت میں جانے سے روک دیا جاتا ہے، جب تک اسے ادا نہ کیا جائے وہ جنت سے محروم رہتا ہے ، صورت مسؤلہ میں یہ چاہیے تھا کہ میت کی جائیداد تقسیم کرنے سے قبل اس کے ذمے قرض کو ادا کیا جاتا ، بہر حال میت کے قرض کی ادائیگی انتہائی ضروری ہے، خواہ اسے ادا کرنے والے اقارب ہوں یا اجنبی ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقروض کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا تو حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اس کا جنازہ پڑھائیں، اس کا قرض میں ا دا کروں گا۔[3] پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھایا۔ میت کے قرض کی ادائیگی درج ذیل طریقہ سے کی جائے: ٭ اس کا ترکہ تقسیم کرنے سے پہلے ترکہ سے قرض ادا کیا جائے۔ ٭ اگر ترکہ نہ ہو تو کوئی بھی مسلمان اس قرض کو ادا کرنے کی ذمہ داری اٹھا سکتا ہے۔ ٭ اگر کوئی ذمہ نہ اٹھائے تو بیت المال سے اس کی ادائیگی کی جائے۔ ٭ اگر بیت المال نہ ہو تو محلے کے مسلمان مل کر میت کا قرض ادا کریں۔ ( واللہ اعلم) امام کیسا ہو؟ سوال:ہمارا امام ایک کاروباری آدمی ہے اور کاروبار کرتے وقت و ہ غلط کام بھی کر لیتا ہے ، ایسے حالات میں اس کے پیچھے نماز پڑھنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے، قرآن و حدیث کے مطابق امام کیسا ہونا چاہیے؟ جواب: انسان ہونے کے ناطے کسی سے غلط کام ہو جانا بعید از عقل نہیں، امام بھی انسانوں میں سے ہے، اس سے بھی غلط کام ہو سکتا ہے، اس لئے ائمہ حضرات کی خردہ گیری نہیں کرنا چاہیے اور امام کا کاروباری ہونا بھی منصب امامت کے منافی نہیں۔ اگرچہ امام کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ ہو اور اعمال و اخلاق کے اعتبار سے اپنے مقتدیوں سے بہتر ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ ایسے لوگوں کو امام بناؤ جو تم میں بہتر ہوں ، کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ایک قاصد کی حیثیت رکھتےہیں۔ [4] اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں سلام بن سلیمان مدائنی راوی قابل حجت نہیں جیسا کہ امام ذہبی نے اس کی وضاحت کی ہے۔[5] تاہم دیگر صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کو لوگوں کا نا پسندیدہ شخص نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے
Flag Counter