Maktaba Wahhabi

282 - 452
مسئلہ وراثت سوال:نتھو کی وفات کے وقت اس کی بیوہ سائراں اور اس کے دادا سلطانی کے بھائی عبد القادر کا بیٹا یوسف زندہ تھا ، جبکہ یوسف کا ایک دوسرا بھائی رُلیا، نتھو کی زندگی میں فوت ہو چکا تھا، اب نتھو کی جائیداد کس طرح تقسیم ہو گی ، نیز بتائیں کہ نتھو کی جائیداد سے یوسف کو ملنے والا حصہ یوسف کی اولاد کو منتقل ہو گا یا اس کے بھائی رُلیا کی اولاد بھی اس میں حقدار ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔ جواب: بشرط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسؤلہ میں میت کے کفن و دفن پر اٹھنے والے اخراجات ، قرض کی ادائیگی اور وصیت کے نفاذ کے بعد اس کی جائیداد سے جو کچھ بچے گا وہ قابل تقسیم ہو گا، سوال سے معلوم ہو تاہے کہ نتھو مرحوم لا ولد فوت ہوا ہے اور اس کے والدین بھی اس وقت زندہ نہ تھے لہذا بیوہ کو اس کی جائیدد سے چوتھا حصہ ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو تمہارے ترکہ سے تمہاری بیویوں کا چوتھا حصہ ہے۔ ‘‘[1] بیوہ کو اس مقرر حصہ ۴/۱ دینے کے بعد باقی ۴/۳ میت کے قریبی مذکر رشتہ دار کیلئے ہے۔ صورت مسؤلہ میں میت کا قریبی مذکر رشتہ دار مرحوم کے دادا سلطانی کے بھائی عبد القادر کابیٹا یوسف ہے ، باقی ترکہ اسے دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’مقررہ حصہ لینے والوں کے بعد جو ترکہ باقی ہو وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ داروں کا ہے۔ [2] میت کے قریبی مذکر رشتہ داروں میں یوسف ولد عبد القادر کے علاوہ کوئی اور زندہ نہیں، لہذا بیوہ سائراں کو ۴/۱ دینے کے بعد باقی ۴/۳ کا حقدار یوسف ولد عبد القادر ہے۔ یہ ماندہ حصہ یوسف کی وفات کے بعد اس کی اولاد کو منتقل ہو گا، رُلیا کی اولاد اس میں قطعاً حقدار نہیں کیونکہ رُلیا تو نتھو مرحوم کی زندگی میں فوت ہو چکا تھا، اس بنا پر وہ خود بخود نتھو کی جائیداد سے محروم ہو گیا ، جب وہ خود محروم ہے تو اس کی اولاد ، اس کے ترکہ سے کیسے حقدار ہو سکتی ہے، بہر حال رُلیا کی اولاد کو اس ترکہ سے کچھ نہیں ملے گا۔ (واللہ اعلم) ایک مسئلہ وراثت سوال:ایک شخص اپنے دادا مرحوم کی جائیداد سے ملنے والی وراثت کو صرف اپنے تصرف میں لا تا ہے ، بہنوں کو اس سے محروم رکھتا ہے اور اسے صرف اپنی اولاد کے نام کر نا چاہتا ہے ۔ کیا یہ مجوزہ اقدام شریعت کے مطابق ہے ، وضاحت فرمائیں۔ جواب: بشرط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسؤلہ میں محمد ایوب کا مجوزہ اقدام شریعت کے خلاف ہے کیونکہ اولاً کوئی بھی باپ اپنی زندگی میں وراثت کے طور پر اپنی جائیداد اپنی اولاد کو نہیں دے سکتا۔ کیونکہ وراثت موت کے بعد بنتی ہے اور کسی کی موت کے وقت جو ورثا زندہ موجود ہوں وہ ا س وراثت کے حقدار ہو تے ہیں۔ مذکورہ صورت میں اس بات کا قطعی علم نہیں کہ باپ کی وفات کے وقت اس کی اولاد میں سے کون کون زندہ تھا۔ ثانیاً متروکہ جائیداد میں اس کی ہمشیر گان بھی شریک ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے متعلق تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ ‘‘[3]
Flag Counter