Maktaba Wahhabi

273 - 452
مسئلہ وراثت سوال:ہمارے والد محترم دو سال قبل وفات پا گئے تھے، پسماندگان میں سے ہم چار بھائی، ایک بہن اور والدہ زندہ ہیں، ہمارے والد نے اپنی سمجھ کے مطابق ہم سب بہن بھائیوں اور والدہ کے نام پلاٹ یا مکان لگوا دیے تھے، وفات کے بعد ہم نے کوئی تقسیم نہیں کی ، کاروبار بھی مشترکہ طور پر چلتا رہا، اب ہمیں کاروبار میں کافی نقصان ہوا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تقسیم کے مرحلہ سے گزرنے کے بعد ہم اپنا کاروبار بھی تقسیم کر لیں ، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں کہ کس کو کتنا حصہ ملے گا؟ جواب: سوال کا جواب دینے سے قبل ہم اس امر کی وضاحت کرنا ضروری خیال کر تے ہیں کہ اپنی زندگی میں کوئی شخص بھی اپنی جائیداد بطور وراثت تقسیم کر نے کا مجاز نہیں ہے اور نہ کوئی لڑکا یا لڑکی اپنے وراثتی حصے کا مطالبہ کر سکتا ہے کیونکہ وراثت کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان کی وفات ہو جائے اور حصہ لینے والا اس کی وفات کے وقت زندہ موجود ہو، جو مورث کی وفات سے پہلے فوت ہو چکا ہے ۔ اس کا وراثتی حصہ خود بخود ختم ہو جا تاہے، اس وضاحت کے بعد ہم اصل سوال پر غور کر تے ہیں، فوت ہو نے والے بزرگ نے اپنی زندگی میں جو وراثتی حصے بصورت پلاٹ یا مکان اپنی اولاد یا بیوی کے نام لگوائے تھے وہ شرعاً نا جائز ہیں، وہ اپنی زندگی میں اولاد اور اپنی بیوی کی ضروریات کو پورا کر نے کے پابند تھے، اس سے آگے بڑھ کر بطو وراثت اولا د کے نام پلاٹ خریدنا یا بیوی کے نام مکان لگوانا اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا ہے، اب اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ جو جو پلاٹ یا مکان کسی کے نام لگوائے گئے ہیں ان سب کو ایک کر دیا جائے اور کاروبار سے جو منافع حاصل ہوا ہے ، اسے بھی اصل جائیداد میں شامل کر لیا جائے اور کاروبار میں جو نقصان ہواہے وہ بھی مشترکہ طور پر کاروبار پر تقسیم کر دیا جائے، اگر کاروباری قرضہ ہے تو وہ بھی اس چالو کاروبار سے ادا کیا جائے، باقی چالو کاروبار اور اس سے حاصل شدہ منافع کے بہتر (۷۲)حصے کر لے جائیں پھر ان سے آٹھواں حصہ (72/8=9) بیوہ کو دیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر مر نے والے کی اولاد ہے تو کل ترکہ سے بیویوں کو آٹھواں حصہ دیا جائے ۔ [1] ان بہتر حصوں سے نو حصے نکالنے کے بعد جو باقی تریسٹھ حصوں کو اس طرح تقسیم کیا جائے کہ ایک لڑکے کو لڑکی کی نسبت دو گنا حصہ ملے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ لڑکے کو لڑکی سے دو گنا دیا جائے۔[2] اس طرح لڑکی کو سات حصے اور ہر لڑکے کو چودہ ، چودہ حصے دیے جائیں، حدیث میں ہے کہ مقررہ حصہ لینے والوں کا حصہ نکال کر باقی جائیداد میت کے قریبی رشتہ داروں کو دی جائے اور بیوی کا مقررہ حصہ نکالنے کے بعد قریبی رشتہ دار اس کی اولاد ہے، لہذا مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اسے تقسیم کر لیا جائے ۔ (واللہ اعلم ) بہن کا بھائیوں کے برابر حصہ وصول کرنا سوال:والد کی وفات کے بعد بیٹی کا دعویٰ ہے کہ والد کی وصیت کے مطابق میں بھائیوں کے برابر حصہ لوں گی ، کیا ایسا کرنا جائزہے؟ جبکہ وصیت کا علم صرف بیٹی کو ہے ۔
Flag Counter