Maktaba Wahhabi

186 - 452
زبر جد اور یا قوت جیسے قیمتی پتھرلگے ہو تے ہیں ، ان کے متعلق زکوۃ کس حساب سے ادا کی جائے گی، زیورات میں انہیں شمار کیا جائے گا یا نہیں ؟ جواب: سونے چاندی کے علاوہ دیگر جواہرات کو استعمال کر نے میں کوئی زکوۃ نہیں دی جا تی، کیونکہ ان کے استعمال کرنے پر زکوۃ کی ادائیگی کتاب و سنت سے ثابت نہیں، اگر انہیں تجارت اور خرید و فروخت کے لیے رکھا ہے تو پھر عام تجارتی سامان کی طرح ان کی قیمت میں زکوۃ ادا کرنا ہو گی ۔ اسی طرح انگوٹھیوں میں جو قیمتی پتھروں کے نگینے ہو تے ہیں اگر آسانی کے ساتھ انہیں الگ کیا جا سکتاہے تو انہیں الگ کر کے سو نے کے صافی وزن سے زکوۃ ادا کر دی جائے گی اور اگر انہیں الگ کر نے سے انگوٹھی خراب ہو نے کا اندیشہ ہو تو سونے کے وزن کا اندازہ کر کے اس سے زکوۃ ادا کی جائے گی۔ جواہرات کے استعمال کر نے پر کوئی زکوۃ نہیں خواہ وہ کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہوں ، اگر یہ انگوٹھیاں بغرض تجارت تیار کی گئی ہیں اور ان کی خرید و فروخت ہو تی ہے تو سونے کی قیمت کے ساتھ ان کا حساب لگایا جائے گا پھر مجموعی قیمت سے زکوۃ ادا کی جائے گی جو اڑھائی فیصد کے حساب سے ہو گی ، مثلاً انگوٹھی میں لگے ہوئے سو نے کی قیمت دو لاکھ اور قیمتی پتھر کا نگینہ ایک لاکھ کا ہے تو تین لاکھ کی زکوۃ ادا کرنا ہو گی جو ساڑحے ساتھ ہزار روپیہ ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب وہ انگوٹھی تجارت اور خرید و فروخت کے لیے ہو ، اگر اسے کسی عورت نے بطورِ زیور استعمال کرنا ہے تو اس صورت میں صرف سونے پر زکوۃ ہو گی قیمتی نگینہ سے زکوۃ نہیں دی جائے گی۔ (واللہ اعلم) زکوۃ کے لیے اصل مال پر سال گزارنا سوال: کیا زکوۃ ادا کر تے وقت مال پر سال کا گزرنا ضروری ہے ، آیا سال گزرنے سے پہلے اگر کوئی ضرورت مند آ جائے تو کیا اسے زکوۃ دی جا سکتی ہے یا سال گزرنے کا انتظار کرنا ہو گا؟ جواب: زکوۃ کی شرائط میں سے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ مال مملوکہ پر ایک سال گزر جائے، شریعت نے حکمت و مصلحت کے پیش نظر ایک مدت مقرر کر دی ہے اور وہ مدت ایک سال ہے۔ زکوۃ کو اس مدت سے مر بوط کر نے سے اہل ثروت اور زکوۃ کے حقداروں میں توازن پیدا کرنا مقصود ہے ۔ اگر سال سے کم عرصے میں زکوۃ کی ادائیگی کو ضروری قرار دیا جائے تو اس سے مال داروں کے مال میں نقصان کا اندیشہ ہے اور سال سے زیادہ مدت مقرر کر دی جا تی تو اس سے مستحقین زکوۃ کا استحقاق مجروح ہوتا، لہٰذا شریعت نے زکوۃ کے واجب ہو نے کے لیے ایک سال گزرنے کی شرط لگا دی ہے۔ اگر اموال مملوکہ پر سال گزرنے سے پہلے پہلے صاحب فوت ہو جائے یا اس کا مال تلف یا چوری ہو جائے تو اس میں زکوۃ ساقط ہو جا تی ہے۔ البتہ اگر سال گزرنے سے پہلے کوئی حقدار آ جائے اور زکوۃ کا طالب ہو تو اسے فرضیت سے قبل زکوۃ دی جا سکتی ہے، ادا کر دہ زکوۃ کو آئندہ حساب میں شامل کر لیا جائے گا جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ زکوۃ الفطر ، عید کا چاند نظر آ نے سے ایک دو دن پہلے تحصیل دار کو جمع کرا دیتے تھے ، اس سے قبل از وقت زکوۃ ادا کر نے کا جواز معلوم ہو تا ہے ۔ لیکن تین چیزیں سال پورا ہو نے کی شرط سے مستثنی ہیں جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔
Flag Counter