Maktaba Wahhabi

315 - 452
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اسلام کے نزدیک مسلمانوں میں رنگ نسل یا خاندان و قبیلہ کی بنیاد پر تفریق وجہ فضیلت نہیں ہے، اسلام میں اللہ کے ہاں فضیلت صرف تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ آخر میں ہم سائلہ کو یہ وصیت کرتے ہیں کہ وہ صبر و تحمل سے کام لے اور کوئی ایسا اقدام نہ کرے جو خاندان کے لئے باعث ننگ و عار ہو ، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے ، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور ایسا رفیق سفر عطا فرمائے گا جو آپ کے لئے اللہ کی اطاعت میں مدد گار و معاون ثابت ہو۔ ( واللہ اعلم) بیوہ عورت کا ولی کے بغیر نکاح کرنا سوال:ہمارے پڑوس میں ایک بیوہ ہے ، اس کے والد عقد ثانی کے متعلق تذبذب کا شکار ہیں، اس نے کسی سے مسئلہ پوچھا تو بتایا گیا کہ بیوہ خود مختار ہے، اس کے ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے، اس نے خفیہ طور پر کسی سے نکاح کر لیا، نکاح کے وقت وہاں صرف نکاح خواں، دولہا، وہ خود اور ایک اور آدمی موجود تھا ، کیا یہ نکاح درست ہے؟ وہ خود بھی پریشان ہے کہ اس کے والد کسی دوسری جگہ شادی کرنا چاہتے ہیں ، کیا دوسری جگہ پر نکاح کرنا، نکاح پر نکاح تو نہیں ہو گا، کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں؟ جواب: دین اسلام میں کوئی بھی مسلمان عورت اپنے نکاح کا معاملہ از خود طے نہیں کر سکتی خواہ وہ بیوہ ہی کیوں نہ ہو، بلکہ اس کے نکاح کا معاملہ اس کے ولی کی وساطت ہی سے انجام پائے گا۔ احادیث میں اس امر کی صراحت ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے۔‘‘[1] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو وہ نکاح باطل ہے، وہ نکاح باطل ہے، وہ نکاح باطل ہے۔‘‘[2] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت ، کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے۔ ‘‘[3] اس حدیث کے پیش نظر ولایت کے لئے مرد کو ضروری قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ باپ کے بجائے ماں ولی نہیں بن سکتی اور نہ کوئی لڑکی از خود اپنا نکاح کر سکتی ہے۔ اگر باپ نہیں ہے تو چچا یا بھائی وغیرہ ولی بنے گا، اگر کوئی بھی نہیں ہے تو حاکم وقت یا قاضی اس کا ولی ہو گا۔ بہر حال اسلام کی تعلیمات میں بڑا توازن ہے کہ جن والدین نے لڑکی کو پالا پوسا، اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا ، وہ نکاح میں بنیادی کردار ادا کرنے کے حقدار ہیں، ان کی رضا مندی کے بغیر لڑکی کی شادی ناجائز ہے۔ دوسری طرف والدین کو لڑکی پر جبر کرنے اور اس کی رضا مندی حاصل کئے بغیر اس کی شادی کرنے سے منع کیا گیا ہے، جن روایات میں بیوہ کو خود مختار کہا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ہونے والے خاوند کا انتخاب کرنے میں خود مختار ہے، اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ اپنا نکاح کرنے میں خود مختار ہے۔
Flag Counter