Maktaba Wahhabi

395 - 452
جواب: کسی کے لئے کھڑےہونے کی دو اقسام حسب ذیل ہیں: ٭ آنے والے کا آگے بڑھ کر استقبال کرنا ، اس طرح احتراماً استقبال کرنا جائز ہے، شریعت میں اس کا ثبوت ملتا ہے ، آگے بڑھنے کے بجائے اپنی جگہ پر احتراماً کھڑے ہونا، اس کی شرعاً ممانعت ہے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرمی ہے: ’’ جو شخص اپنے لئے لوگوں کا کھڑے رہنا پسند کرے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ ‘‘[1] حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی دوسرا شخص محبو ب نہ تھا اس کے باوجود وہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر کھڑے نہ ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ناپسند کرتے ہیں۔[2] ان احادیث کی بناء پر ہمارے اساتذہ کرام کو چاہیے کہ وہ اسلامی تہذیب کو اختیار کریں اور فرنگی ثقافت کو ترک کر کے دینی غیرت کا ثبوت دیں۔ یہ حکم مردوں ، عورتوں سب کے لئے ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے ناپسندیدہ افعال سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین بچے کی پرورش کا حق کس کو ہے؟ سوال:میرے چھوٹے بھائی کی شہادت کے چھ ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹا عطا فرمایا، اس وقت اس کی بیوی اپنے والدین کے پا س تھی ، ہماری خواہش ہے کہ بھائی کی بیوی بچے سمیت ہمارے پاس رہے لیکن بچے کی نانی نے سخت رد عمل کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ اب ددھیال والوں کا کوئی حق نہیں رہا، وہ اپنی بیٹی کا سامان وغیرہ بھی لے گئے ہیں، بھائی کی شہادت کے ڈیڑھ سال بعد اس کی بیوی نے دوسری شادی بھی کر لی ہے، ہماری خواہش ہے کہ بھائی کا بیٹا ہمارے ہاں پرورش پائے، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں کہ یتیم بچے کی پرورش کا حق کسے ہے؟ جبکہ ننھیال والے بچے کو ددھیال والوں سے ملنے ملانے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔ جواب: شریعت اسلامیہ نے بچے کی پرورش و پرداخت کا حقدار ماں کو ٹھہرایا ہے جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرا یہ بٹیا ہے، میرا پیٹ اس کے لئے برتن تھا، میری چھاتی اس کے لئے مشکیزہ تھی اور میری آغوش اس کے لئے جائے قرار تھی ، اس کے والد نے بھی مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ مجھ سے اس بچے کو بھی چھیننا چاہتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس بچے کی زیادہ حقدار ہے جب تک عقد ثانی نہیں کرتی۔[3] اس حدیث میں ایسے تین اوصاف بیان ہوئے ہیں جو بچے کی پرورش کے سلسلہ میں ماں کے ساتھ خاص ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس بناء پر دیا کہ بچے کے حق میں ماں انتہائی مہربان ہوتی ہے اور اس کی پرورش و نگرانی میں وہ مرد کی نسبت زیادہ قدرت رکھتی ہے ، ہاں اگر ایسے عوارض پیش آ جائیں جن کی وجہ سے بچے کے حق میں ماں کی اس محبت و شفقت کے معدوم ہو
Flag Counter