Maktaba Wahhabi

308 - 452
رخصتی سےقبل وفات سوال:ایک عورت کا کسی شخص سے نکاح ہوا ، لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ وہ فوت ہو گئی، اس کے کچھ زیوارت ہیں جو خاوند نے اسے بطور حق مہر دیئے تھے، کیا اس کے ترکہ سے خاوند کو حصہ ملے گا یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟ جواب: جب کسی عورت کا نکاح ہو جاتا ہے تو وہ بیوی بن جاتی ہے خواہ اس کی رخصتی نہ ہوئی ہو، اس کے لئے بیوی کے حقوق ثابت ہو جاتے ہیں، اسی طرح جس سے نکاح ہوا ہے وہ اس کا خاوند بن جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی فوت ہو جائے تو ایک کو دوسرے کا وارث بنایا جائے گا ۔ صورت مسؤلہ میں خاوند نے جو زیورات بطور حق مہر دیئے ہیں، ان میں سے نصف کا حقدار اس کا خاوند ہے اگرچہ رخصتی نہیں ہوئی ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ تمہاری بیویاں جو مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے نصف ہے۔‘‘[1] اگر مرنے والی لڑکی کا کوئی وارث ہے تو باقی ماندہ مال اسے دیا جائے گا، بصورت دیگر اسے بیت المال میں جمع کرا دیا جائے کیونکہ جس مال کا کوئی معین مالک نہ ہو، اسے بیت المال میں جمع کرا دیا جاتا ہے۔ ( واللہ اعلم) طلاق کا شرعی طریقہ سوال:میری بیوی نافرمان اور گستاخ ہے، اسے سمجھانے بجھانے کے تمام حربے استعمال کر چکا ہوں لیکن یہ سب بے سود ثابت ہوئے ہیں، اب میں اسے طلاق دینا چاہتا ہوں ، اس طلاق کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ جواب: قرآن کریم نے نافرمان اور گستاخ بیوی کو سمجھانے کے لئے درج ذیل چار طریقے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے: 1 اسے وعظ و نصیحت کی جائے اور نافرمانی کے انجام سے آگاہ کیا جائے۔ 2 اگر وہ باز نہ آئے تو خواب گاہ سے اسے الگ کر دیا جائے ۔ 3 اگر یہ طریقہ بھی کارگر ثابت نہ ہو تو اسے ہلکی پھلکی مار دی جائے۔ 4 اگر مار پیٹ کا وہ کوئی اثر قبول نہ کرے تو اصلاح احوال کے لئے ثالثی کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اگر ثالثی کے ذریعہ بھی اصلاح نہ ہو سکے تو اسے ایک طلاق دی جائے ، حالانکہ آج کل نکاح تحریری ہوتے ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ طلاق بھی تحریری دی جائے، ایک طلاق دینے کا فائدہ یہ ہو گا کہ اگر عورت کا دماغ درست ہو جائے تو دوران عدت تجدید نکاح کے بغیر ہی رجوع ہو سکتا ہے، اگر عدت گزر جائے تو نکاح تو ٹوٹ جائے گا لیکن تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اپنے خاوند سے نکاح کرنے سے نہ روکو ، جب کہ وہ معروف طریقہ کے مطابق آپس میں نکاح کرنے پر آمادہ ہوں۔‘‘[2]
Flag Counter