Maktaba Wahhabi

252 - 452
سے صرف ایک کو نفع ہو اور باقی نقصان میں رہیں اور اس نفع کا مدار بھی محض اتفاق ہو ، جوا میں کسی کو علم نہیں ہو تا کہ کون نقصان میں رہے گا اور کسے نفع ملے گا، بیمہ کا معاہدہ بھی یہی ہو تا ہے اس معاملہ میں دو شریک ہیں ایک صارف اور دوسرا کمپنی ، ان میں سے کسی کو علم نہیں ہو تا کہ کون نفع لے گا اور کسے نقصان پہنچے گا ، اگر معاہدہ ہو تے ہی نقصان ہو گیا تو کمپنی کی طرف سے خطیر رقم مل جا تی ہے جو اس نے ادا نہیں کی ہو تی۔ اس طرح اگر مدت پوری ہونے کے بعد حادثہ نہ ہوا تو صارف کی ادا کر دہ رقم ضائع اور تمام رقم کمپنی کو مل جائے گی اور صارف کو کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ اس کاروبار کی بنیاد حادثہ ہے جو ایک اتفاقی چیز ہے ۔ یہی معاملہ جوئے میں ہو تا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اے ایمان والو !شراب ، جوا ، بت اور پانسے ناپاک کام اور شیطانی عمل ہیں، ان سے اجتناب کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔ ‘‘[1] اس کاروبار کے حرام ہونے کا تیسرا سبب یہ ہےکہ اس میں سود شامل ہوتا ہے ۔ بلکہ یہ سارا معاہدہ ہی سود پر مشتمل ہو تاہے کیونکہ صارف جو رقم اقساط کی صورت میں ادا کر تا ہے ، حادثہ کے وقت اسے ادا کردہ رقم سے کہیں زیادہ مل جا تی ہے اور اسی کا نام سود ہے کیونکہ صارف کو زائد رقم اس رقم کے عوض ملتی ہے جو اس نے اقساط کی صورت میں ادا کی تھی ۔ سود میں بھی یہی ہو تاہے کہ ایک آدمی کچھ رقم دوسرے کو دیتا ہے پھر خاص مدت کے بعد اس رقم کے عوض کچھ زائد رقم وصول کر تاہے ، جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’اگر تم توبہ کر لو تو صرف اپنی رقم کے حقدار ہو۔‘‘[2] یہ کاروبار اس لیے بھی ناجائز ہے کہ اس پر عمل کر نے سے اسلام کا ضابطہ وراثت مجروح ہو تا ہے کیونکہ مرنے کی صورت میں زر بیمہ کا مالک وہ نامدار شخص بن جا تا ہے جو صارف نے اپنی زندگی میں نامزد کیا ہو تا ہے باقی ورثا اس سے محروم ہو تے ہیں، حالانکہ ضابطہ وراثت کے مطابق تمام شرعی ورثا اس میں شریک ہو تے ہیں ۔ اس تفصیل سے معلوم ہو اکہ بیمہ کا کاروبار قطعی طور پر نا جائز اور حرام ہے کیونکہ یہ دھوکے ، جوا ، سود اور دیگر قباحتوں پر مشتمل ہے، اس لیے ایک مسلمان کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بیمہ کے حرام ہونے کے متعلق ہم نے ایک تفصیلی فتویٰ جاری کیا تھا جو فتاویٰ اصحاب الحدیث( ص ۲۷۰ ج ۱)میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لکی کمیٹی کی شرعی حیثیت سوال: ہمارے علاقہ میں لکی کمیٹی کا کاروبار عروج پر ہے ، چند ساتھی مل کر ماہانہ کمیٹی ڈالتے ہیں پھر قرعہ اندازی کے ذریعے جس کا نام نکل آتا ہے ، اسے موٹر سائیکل دی جا تی ہے اور اس کے بعد وہ کوئی قسط وغیرہ بھی ادا نہیں کر تا، اس کے متعلق کچھ علما کا موقف ہے کہ ایسا کاروبار نا جائز ہے جبکہ کچھ اہل علم حضرات اسے جائز کہتے ہیں، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔ جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال و حرام کے متعلق تمیز نہ کرنے کی جو پیشین گوئی فرمائی تھی وہ دور حاضر میں حقیقت کا روپ دھا رکر ہمارے سامنے آ رہی ہے، آپ نے فرمایا تھا’’میری امت پر ایک وقت آئے گا کہ لوگوں کے درمیان حلال و حرام کی تمیز اٹھ جائے گی، انسان اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ وہ حلال استعمال کر تا ہے یا حرام کھا رہا ہے۔[3] ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ بڑی لا پر وائی اور ڈھٹائی کے ساتھ حرام کھا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بایں الفاظ
Flag Counter