Maktaba Wahhabi

168 - 452
اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ جنازگاہ اور مسجد دونوں جگہ جنازہ ادا کرنا درست ہے۔‘‘[1] امام بخاری کے نزدیک جنازگاہ اور مسجد دونوں کا حکم ایک ہے ۔چنانچہ جنازگاہ میں پڑھنے کی صراحت موجود ہے، لہٰذا مسجد میں بھی اس کی ادائیگی صحیح ہے ۔[2] اسکے علاوہ احادیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ مسجد میں جنازہ پڑھا جاسکتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: ’’ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی تھی۔‘‘ [3] امام ابو داؤد نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے ’’ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا درست ہے۔‘‘ [4] اس حدیث میں ان لوگوں کی تردید ہے جو میت کو ناپاک کہتے ہیں یا جو اوہام کا شکار ہو جاتے ہیں کہ مبادا اس سے کوئی آلائش نکل آئے، اس لئے ان کے نزدیک مسجد میں جنازہ جائز نہیں ہے۔ یہ ان کا گمان ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ذکر ہوا ہے ، اس کے علاوہ حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس نے کسی میت کا جنازہ مسجد میں ادا کیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ‘‘[5] حافظ ابن حجر نے مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی تھی اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا جنازہ بھی مسجد میں پڑھا تھا۔ [6] ان روایات کے پیش نظر مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا اور جو لوگ اسے ناجائز کہتے ہیں وہ بے بنیاد اور لایعنی اوہام کا شکار ہیں، اگرچہ ہمارے نزدیک جنازہ مسجد سے باہر جناز گاہ میں پڑھنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام سے اکثر و بیشتر مسجد سے باہر جناز گاہ میں پڑھنا ہی ثابت ہے۔ ( واللہ اعلم) قبرستان میں مجاور بٹھانا سوال:ہمارے اہل دیہہ نے قبرستان میں ایک مجاور بٹھانے کا پروگرام بنایا ہے تاکہ وہ قبروں کی حفاظت کرے اور اس کی خدمت کےلئے ہر گھر سےکچھ طے شدہ رقم لی جاتی ہے، کیا قبروں میں اس طرح مجاور بٹھانا شرعاً جائز ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں؟ جواب: قبروں میں کونسا خزانہ مدفون ہے جس کے لئے کسی مجاور کو بٹھانے کی ضرورت ہو، یہ ایک فضول حرکت ہے، دین اسلام اس طرح کے بے فائدہ کاموں کی اجازت نہیں دیتا ۔ ۹۷ھ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بیٹے حسن بن حسن فوت ہوئے تو ان کی شریک حیات حضرت فاطمہ بنت حسین نے ایک سال تک ان کی قبر پر خیمہ لگائے رکھا ، خاوند کی شدید محبت نے انہیں اس کام پر مجبور کیا، جب خیمہ اکھاڑ دیا گیا تو ہاتف غیبی سے آواز آئی’’ کیا انہوں نے اپنی گم شدہ چیز کو حاصل کرلیا ۔‘‘ اس کے جواب میں ایک
Flag Counter