Maktaba Wahhabi

243 - 452
ہمارے رجحان کے مطابق کسی مالدار سے قرض لے کر اپنے باپ کی رہائی دلائی جا سکتی ہے لیکن اس رہائی کے لیے سود پر قرض لینا شرعاً درست نہیں ہے ، ایسی صورت میں بہتر یہی ہےکہ دو سال تک مزید قید بر داشت کر لی جائے لیکن اس حرام کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ (واللہ اعلم) بینک سے مالی معاملات کرنا سوال: میرے ایک دوست کی پراپرٹی کروڑوں روپے مالیت کی ہے لیکن وہ مستقبل میں اس کے مصرف میں نہیں آسکتی ، وہ اسے فروخت کرنا چاہتا ہے لیکن جب بھی کسی سے اس زمین کی فروخت کا معاملہ شروع کیا جا تا ہے تو والدین درمیان میں حائل ہو جا تے ہیں، کیا وہ اس زمین کے عوض بنک سے قرضہ لے سکتا ہے، جبکہ اس کا قرض کی ادائیگی کا کوئی پروگرام نہیں بلکہ اس کی نیت ہے کہ نا دہندہ ہو نے کی صور ت میں بنک خود ہی اسے فروخت کرنے کا مجاز ہو گا ، کیا ایسا کرنا نا جائز ہے ، کتاب و سنت کی روشنی میں میرے دوست کی راہنمائی کریں۔ جواب: آدمی جس چیز کا مالک ہو وہ اس میں تصرف کر نے کا مختارہے، اسے فروخت کرے یا کسی کو ہبہ کر دے ، کسی کو درمیان میں حائل نہیں ہو نا چاہیے، لیکن والدین اپنی اولاد کے خیر خواہ ہو تے ہیں ، ان کی صوابدیدی رائے کویوں ہی رد نہیں کیا جا سکتا، لڑکے کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بیٹھے اور ان سے مشاورت کرے، انہیں قائل کرے کہ مستقبل قریب میں یہ پراپرٹی میرے کسی کام نہیں آ سکتی ، اگر اسے فروخت کر دیا جائے تو حاصل ہو نے والی رقم سے کاروبار کیا جا سکتا ہے اور اس سے نفع حاصل ہو نے کی امید بھی کی جا سکتی ہے۔ بہر حال والدین کو قائل کیا جا سکتا ہے ، یہ مسئلہ کوئی ایسا نہیں ہے جو حل نہ ہو سکے۔ اگر والدین اس پر آمادہ نہ ہوں تو ان کے موقف پر ٹھنڈےدل سے غور کر لیا جائے ، اگر اسے فروخت کیے بغیر کوئی اور چارہ نہیں ہے تو کسی بھی پراپرٹی ڈیلر کے ذریعے اسے فروخت کیا جا سکتا ہے ، امید ہے کہ یہ کام والدین کی نا فرمانی کے زمرے میں نہیں آئے گا لیکن بنک کے ساتھ حیلہ گری کر نے کی شرعاً اجازت نہیں ہے کہ وہ بینک سے اس پراپرٹی کے عوض قرض لے اور قرض واپس کر نے کی نیت نہ ہو ، شرعی طور پر اس نیت سے قرض لینا جائز نہیں ہے ، ہمارا تو یہ موقف ہے کہ بنک کے ساتھ اس طرح کا مالی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ بنک کی بنیاد سود لینے اور سود دینے پر ہے، پاکستان میں تمام بنک حکومتی بنک، یعنی سٹیٹ بنک کے ممبر ہو تے ہیں اور حکومتی بنک آگے عالمی بنک یعنی ورلڈ بنک کے ممبر ہو تے ہیں اور سودی کاروبار کر تے ہیں ۔ سودی معاملات میں ان سے تعاون کرنا یا ان سے قرض لینے سے یا انہیں قرض دینے کا معاملہ کرنا محل نظر ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’نیکی اور پر ہیز گاری کے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرو لیکن گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ ‘‘[1] لہٰذا ہمارا رجحان یہ ہے کہ بنک سے بامر مجبوری تو کوئی مالی معاملہ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اس کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے تو بنک کے ساتھ مالی معاملات کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
Flag Counter