Maktaba Wahhabi

190 - 452
سے زکوۃ ادا کرنا ہو گی۔ اس صورت میں بھینسوں اور گائیوں کی مالیت پر زکوۃ نہیں اور اگر انہیں برائے فروخت رکھاگیا ہے یا انہیں گوشت کے لیے پالا گیا ہے یا بکریاں قربانی کے دنو ں میں فروخت کر نے کے لیے رکھی گئی ہیں تو ان کی مجموعی مالیت پر زکوۃ ہوگی۔ ہمارے ہاں جو ڈیری فارم ہیں ان میں جانور دودھ کے لیے رکھے جا تے ہیں لہٰذا اس دودھ سے حاصل ہو نے والی رقم اگر نصاب کو پہنچ جا ئے تو اس سے چالیسواں حصہ بطور زکوۃ ادا کیا جائے۔ (واللہ اعلم) حرام کمائی سے صدقہ کرنا سوال: ہمارا ایک دوست غلط کارو بار کر تا ہے پھر اس حرام کمائی سے صدقہ و خیرات بھی کر تا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ صدقہ و خیرات کر نے سے سب گناہ دھل جا تے ہیں ، کیا واقعہ صدقہ کر نے سے حرام کمائی کا دھبہ صاف ہو جا تاہے ؟ جواب: یہ ہماری انتہائی بد بختی ہے کہ آج کل حلال اور حرام کی تمیز بالکل مٹ چکی ہے ۔ پیسے کی طمع اور دولت کی حرص نے ہر آدمی کو کچھ اس طرح اندھا کر دیا ہے کہ وہ جائز اور نا جائز ہر طریقہ سے دولت سمیٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہے ۔ اس مقصد کے لیے نہ وہ مکر و فریب سے باز آ تا ہے اور نہ ہی جھوٹ اور بد دیانتی کو چھوڑتا ہے۔ غالباً اسی دور کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’لوگوں پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ آدمی اس بات کی پر وا نہیں کرے گا، جو مال اس کے ہاتھ آیا وہ حلا ل ہے یا حرام ۔ ‘‘[1] اس حدیث کے پیش نظر ہمیں چاہیے کہ ہم کسب حرام سے کلی طور پر اجتناب کریں اور اپنی تمام تر توجہ کسب حلال کی طرف دیں، کیونکہ حرام خوری کر نے والا خواہ کتنی ہی عاجزی سے اپنے رب کو پکارے ، اللہ تعالیٰ اس کی دعا نہیں سنتے اور نہ ہی اسے شرف قبولیت سے نوازتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حرام خور کا ذکر کیا جو لمبے سفر سے آیا جس کے بال پراگندہ اور غبار آلود ہیں وہ اپنے دونوں ہاتھ آ سمان کی طرف اٹھا کر کہتا ہے : اے میرے رب ! اے میرے رب !جبکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام ، اس کا لباس حرام اور حرام ہی سے پر وان چڑھا تو ایسے شخص کی دعا کیونکر قبول ہو …؟[2] ایسے حرام خور کے متعلق یہ بھی صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کا صدقہ بھی قبول نہیں کر تا ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص حرام کمائے پھر اسے صدقہ کرے تو ایسا صدقہ قبول نہیں ہو تا اور اگر اس سے خرچ کر ے تو اس میں برکت نہیں ہو تی۔[3] حدیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ خود بھی پاک ہے اور حلال و پا کیزہ چیز کو قبول کر تاہے۔ [4] لہٰذا ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے جو ڈھٹائی کے ساتھ حرام مال کماتا ہے اور پھر دھوکہ دینے کے لیے اس سے کچھ صدقہ کر دیتا ہے ۔ اس پر مزید یہ کہ وہ بزعمِ خویش اسے اپنے گناہ کا کفارہ سمجھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کسبِ حلال کی توفیق دے۔ آمین! قبل از وقت زکوۃ دینا سوال: ہم ماہ رمضان میں زکوۃ ادا کر دیتے ہیں لیکن بعض اوقات ایسا ہو تا ہے کہ دوران سال کوئی ضرورت، مند
Flag Counter