Maktaba Wahhabi

419 - 452
’’ایسی چیز کے متعلق سوال نہ کرو جو ابھی واقع نہیں ہوئی ، ہم نے اپنے والد گرامی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ ایسے شخص پر لعنت کرتے تھے جو ایسی اشیاء کے متعلق سوالات کرتا جو واقع نہ ہوئی ہوں۔ [1] ہم نے کتاب و سنت کی روشنی میں سوالات کی چند اقسام سے آپ کو آگاہ کیا ہے جو مستحسن نہیں ہیں۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ ایسے سوالات کریں جن کا تعلق آپ کی عملی زندگی سے ہے یا آپ عمل و کردار کے لحاظ سے کسی الجھن کا شکار ہیں۔ ہم اللہ کے فضل و کرم سے آپ کی راہنمائی کرنے میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین !) جوان شاگردوں سے پردہ سوال:میں اپنے گھر میں بچوں اور بچیوں کو قرآن پڑھاتی ہوں، کچھ میرے شاگرد جو جوان ہو چکے ہیں وہ مجھے ملنے کیلئے آتے ہیں، کیا مجھے ان سے بھی پردہ کرنا چاہیے جبکہ میں ان کے لئے والدہ کی جگہ پر ہوں، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں؟ جواب: پردہ ، عورت کےلئے ایک زینت ہے۔ اس کے متعلق گنجائش طلب کرنے کے بجائے اس کی پابندی کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۵۴ میں پردہ کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے: ’’ اور جب تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردے پیچھے رہ کر مانگو۔‘‘[2] اس آیت حجاب کے نزول کے بعد پردہ اسلامی طرز معاشرت کا ایک حصہ بن گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امت کے اہل ایمان مردوں کی روحانی مائیں ہیں۔ اب اگر کسی شخص کو اپنی روحانی ماؤں سے کوئی بات پوچھنا ہو یا ضرورت کی کوئی چیز مانگنا ہو تو اسے حکم ہے کہ وہ پردے کے پیچھے رہ کر سوال کرے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب آیت حجاب نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا لیا۔ [3] اس حدیث کے پیش نظر ہماری خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں سے پردہ کریں جب وہ سن بلوغت کو پہنچ جائیں۔ قرآن کریم نے اس کی وجہ بایں الفاظ بیان کی ہے: ’’ یہ پردہ تمہارے اور ازواج مطہرات کے دلوں کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔‘‘ گویا معاشرہ سے بے حیائی اور فحاشی کے خاتمہ کے لئے پردہ انتہائی ضروری چیز ہے، اس کی پابندی سے مرد اور عورت دونوں کے ولی شک و شبہ سے محفوظ رہیں گے نیز ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ بھی نہیں رہے گا، ازواج مطہرات نے اس پردہ کی پابندی کس قدر کی ، اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک آدمی نے کسی دوسرے کی لونڈی سے زنا کیا اور اپنے بھائی کو وصیت کر دی کہ اس لونڈی سے جو بچہ پیدا ہوا تو اسے اپنے قبضہ میں لے لینا کیونکہ وہ میرے نطفے سے ہے، فتح مکہ کے موقع پر اس کے بھائی نے اس بچے کو پکڑ لیا لیکن جس گھر میں پیدا ہوا تھا، اس کے بیٹے نے کہا کہ یہ بچہ میرے باپ کی لونڈی کا ہے لہٰذا اس پر میرا استحقاق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کے متعلق فیصلہ کیا کہ زانی کےلیے تو پتھر ہیں اور یہ بچہ اس کو ملے گا جس کے گھر پیدا ہوا ہے، چونکہ اس بچے کی شکل و شباہت زانی کے ساتھ ملتی جلتی تھی اس لیے آپ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اگرچہ یہ بچہ تیرا قانونی بھائی
Flag Counter