Maktaba Wahhabi

248 - 452
3 ایک آدمی نے کسی دوسرے شخص کو کوئی چیز فروخت کی ، دو تین ماہ تک اس کی قیمت وصول کر نے کی شرط کر لیتا ہے اور خریدار سے کچھ زر بیعانہ بھی وصول کر لیتا ہے ، اس دوران خریدار کو وہی چیز کسی دوسرے سے ارزاں قیمت پر مل جا تی ہے تو وہ اپنے زر بیعانہ کی پر وا کیے بغیر اپنے وعدے سے منحرف ہو کر کسی دوسرے شخص سے وہ چیز خرید لیتا ہے۔ 4 بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ کوئی تیسرا آدمی فروخت کار کو خراب کرنا چاہتا ہے ، وہ خریدار کے پاس آ کر کہتا ہے کہ میں تجھے وہی چیز اس سے ارزاں قیمت پر مہیا کر تا ہوں، تم اپنا زر بیعانہ میرے کھاتے میں ڈال کر مجھ سے وہ چیز خرید لو، اس طرح وہ اپنے وعدے سے منحرف ہو جا تا ہے حالانکہ فروخت کنندہ کو اس دوران فروخت کر دہ چیز کی زیادہ قیمت ملتی تھی، لیکن وہ اپنے وعدے پر قائم رہا، اس طرح فروخت کنندہ کو نقصان ہو تا ہے۔ ایسے حالات میں کیا کیاجائے ؟ آیا خریدار یا فرخت کار کو اس طرح دھوکہ، فراڈ اور ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جائے یا ان کا کوئی با عزت حل نکالا جائے تاکہ مظلوم اور ستم زدہ انسان کے نقصان کی کچھ نہ کچھ تلافی ہو۔ حالات کے تبدیل ہو نے سے احکام بھی بدل جا تے ہیں، ہمارے رجحان کے مطابق ایسے حالات میں جب ایک دوسرے پر ظلم ہو رہا ہو ، خریدار کا بیعانہ ضبط ہونا چاہیے ، اسی طرح فروخت کنندہ سے دو گنا زر بیعانہ وصول کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر کسی مجبوری کی وجہ سے سودا فسخ کرنا پڑے تو فریقین کو فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو فروخت کر تے وقت نرمی کر تاہے ، خریدتے وقت نرمی کر تا ہے اور جب تقاضا کر تاہے تو بھی نرمی کر تا ہے۔[1] فروخت کار کی نرمی یہ ہے کہ اگر خریدار اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے سودا فسخ کرنا چاہے تو وہ اس کا زر بیعانہ فراخ دلی کے ساتھ واپس کر دے ۔، ’’بحق نقصان‘‘ ضبط نہ کرے، اسی طرح خریدار کی طرف سے نرمی یہ ہے کہ اگر حالات سے مجبور ہو کر فروخت کنندہ اس بیع کو ختم کرنا چاہے تو فراخدلی کے ساتھ اس سودے کو ختم کر دے اور اس سے دو گنا زر بیعانہ کا مطالبہ نہ کرے بلکہ صرف اپنی دی ہوئی رقم ہی واپس لے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے کاروباری معاملات صحیح طریقہ سے چلانے کی توفیق دے۔ آمین بینک میں ملازمت کرنا سوال: مجھے بینک میں ملازمت مل رہی ہے جب کہ میرے ایک دوست نے کہا ہے کہ بینک میں ملازمت شرعاً جائز نہیں ہے ۔ اس کے متعلق میری راہنمائی فرمائیں۔ جواب: بینک خواہ ’’اسلامی ‘‘ ہوں یا غیر اسلامی، ان کی بنیاد سودی کاروبار پر ہے اور سودی لین دین اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کھلی جنگ ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:’’اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ [2] احادیث میں بھی اس کے متعلق سخت وعید آئی ہے۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود
Flag Counter