Maktaba Wahhabi

392 - 452
مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تین آدمیوں سے اللہ نماز قبول نہیں کرتا، ایک وہ جو ( امامت کے لئے ) قوم کے آگے ہوتا ہے لیکن وہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں۔‘‘[1] ان احادیث کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ مسجد کے امام کو دوسرے لوگوں سے بہتر ہونا چاہیے لیکن وہ آخر انسان ہے اور اس سے کمی کوتاہی ہو سکتی ہے لہٰذا در گزر اور چشم پوشی سے کام لینا چاہیے۔ ( واللہ اعلم) عورتوں کا لمبے لمبے ناخن رکھنا سوال:آج کی فیشن زدہ عورتیں لمبے لمبے ناخن رکھتی ہیں، کیا شریعت اسلامیہ میں ایسا کرنا جائز ہے ، کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں؟ جواب: ناخن بڑھانا خلاف سنت ہے، یہ حکم مردو اور عورت دونوں کے لئے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ پانچ چیزیں فطرت سے ہیں: ختنہ کرنا، زیر ناف بال لینا، بغلوں کے بال اکھاڑنا ، ناخن تراشنا اور مونچھیں کاٹنا۔ ‘‘ [2] اسلام میں اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ دونوں کی حد بندی بھی کی گئی ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ ے مروی ہے کہ ہمارے لئے مونچھیں کاٹنے ، ناخن تراشنے، بغلوں کے بال اکھاڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کے لئے وقت مقرر کیا گیا ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ [3] لہٰذا ایک عورت کے لئے جائز نہیں کہ فیشن کے طور پر لمبے لمبے ناخن رکھے یا مصنوعی ناخن استعمال کرے ، اس کے علاوہ ناخن بڑھانا ، درندوں اور کفار سے مشابہت بھی ہے، لہٰذا ممانعت کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے ، بہر حال عورت کو اس طرح کے غیر فطری امور سے پرہیز کرنا چاہیے۔ امام راتب کی موجودگی میں دوسرے شخص کا جماعت کرانا سوال:میں ایک مسجد میں امام ہوں، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں کسی ذاتی مصروفیت کی وجہ سے دو یا تین منٹ لیٹ ہو جاتا ہوں تو ایک شخص خود مصلیٰ پر کھڑا ہوتا ہے اور جماعت کرا دیتا ہے، میرا انتظار نہیں کیا جاتا ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں کوئی عالم دین مہمان آتا ہے تو میری اجازت کے بغیر اسے مصلیٰ پر کھڑا کر دیا جاتا ہے، کیا شرعی طور پر ایسا کیا جا سکتا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں؟ جواب: شریعت میں امامت ایک منصب اور عہدہ ہے لیکن ہمارے ہاں اسے ایک پیشہ خیال کیا جاتا ہے۔ برصغیر میں جس وقت انگریز کی حکومت تھی ، اس نے بڑی چلاکی اور ہوشیاری سے اس منصب کو عام پیشوں کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ اب انگریز کی حکومت اگرچہ ختم ہو چکی ہے لیکن ہمارے ذہنوں میں بدستور اس کی چھاپ موجود ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں آج کسی امام کو ایک پیشہ ور ملازم کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ، دراصل شویٔ قسمت سے اس پر فتن دور میں جو لوگ مساجد اور دینی مراکز چلانے کی
Flag Counter