Maktaba Wahhabi

148 - 452
لیکن اس کی تائید میں ایک موقوف روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انھوں نے فرمایا : ’’اے لو گو! بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لو گوں کو عید گاہ لے جا تے تھے تاکہ وہاں انہیں نماز عید پڑھائیں، یہ بات زیادہ آسان اور وسعت والی تھی ، کیونکہ مسجد میں اتنے لوگ نہیں سما سکتے تھے لیکن اگر بارش ہو تو نماز عید مسجد میں پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ زیادہ آسان بات ہے۔‘‘[1]لیکن مسجدمیں حائضہ عورتوں کے لیے مشکل آسکتی ہے کیونکہ مسجد میں ان کے لیے الگ بیٹھنے کا بند و بست نہیں کیا جا سکتا۔ (واللہ اعلم) خطبہ عید ایک اور نماز عید دوسرا پڑھائے سوال: کیا ایسا کیا جا سکتا ہے کہ خطبہ عید ایک عالم دے اور نماز عید کوئی دوسرا آدمی پڑھائے جو قرآن کو تر تیل سے پڑھنے والا ہو؟ جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک اور خلفاء راشدین کے عہد زریں میں ایک ہی امام خطبہ عید دیتا تھا اور وہی امامت کے فرائض سر انجام دیتا تھا ، یہ تقسیم بہت بعد کی پیدا کر دہ ہے کہ خطبہ عید خطیب دے اور امامت کوئی دوسرا کرائے جب کہ یہ خلافِ سنت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘ [2] اسی بنا پر ہمارا رجحان یہ ہےکہ سنت کے مطابق جو خطیب خطبہ عید دے نماز عید بھی وہی پڑھائے ، ہاں اگر کسی شخص نے خطبہ عید دیا اور اس کا گلہ خراب ہو گیا ، اس قسم کے عذر کی وجہ سے کوئی دوسرا امام نماز عید پڑھا دے تو ایسا کرنا جائز ہے اور اگر کوئی عذر کے بغیر ایسا کرتا ہے اگر چہ اس کا یہ عمل سنت کے خلاف ہے تاہم نماز ہو جائے گی ۔ بہر حال انسان کو چاہیے کہ وہ سنت کو اہمیت دے اور اس پر عمل کر نے کی کوشش کرے۔ (واللہ اعلم) خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر دینا سوال: ہمارے ہاں عام طور پر جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر دیا جا تا ہے ، لیکن کچھ خطباء بیٹھ کر خطبہ دیتے ہیں، قرآن و حدیث کے مطابق بیٹھ کر خطبہ دینے کی کیا حیثیت ہے ؟ آیا متقدمین میں اس کے متعلق کوئی اختلاف ہے ، وضاحت فرمائیں۔ جواب: قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ جمعہ کی کیفیت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے:’’ اور جب انھوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو ادھر بھاگ گئے اور آپ کو اکیلا کھڑا چھوڑ دیا۔ ‘‘[3] اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدنی دور کی ابتدائی زندگی معاشی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے انتہائی پریشان کن تھی ، مہاجرین کی آبادکاری کے علاوہ اہل مکہ نے بھی اہل مدینہ کی معاشی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس کی وجہ سے غلہ، اناج اور کمیاب تھا، انہی ایام کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھےکہ شام سے ایک غلہ کا تجارتی قافلہ مدینہ آ پہنچا اور انھوں نے اپنی آمد کی اطلاع طبلے بجا کر دی ، خطبہ سننے والے مسلمان بھی محض اس خیال سے کہ اگر دیر سے گئے تو سارا غلہ ہی نہ بک جائے، خطبہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے اور آپ کے پاس صرف بارہ آدمیوں کے علاوہ کوئی نہ رہا، اس وقت یہ یت نازل ہوئی۔[4]
Flag Counter