Maktaba Wahhabi

171 - 452
اس حدیث کی بنا پر رشتہ داروں کے انتظار میں جنازہ میں دیر نہیں کرنی چاہیے البتہ ایک دو گھنٹے تک انتظار کرنے میں چنداں قباحت نہیں۔ ہمارا رجحان یہی ہے کہ میت کی تدفین میں جلدی کی جائے اور اگر بعض رشتہ دار دیر سے پہنچتے ہیں تو وہ میت کی قبر پر جنازہ پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں جھاڑو دینے والے مرد یا عورت کی نماز جنازہ قبر پر جا کر پڑھی تھی، جسے دفن کر دیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘[1] چنانچہ صحابہ کرام نے اس کی قبر کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر جا کر نماز جنازہ ادا کی۔ اس حدیث کی بناء پر رشتہ داروں کے انتظار میں جنازہ میں دیر نہ کی جائے اگر وہ دیر سے آتے ہیں تو وہ اس کی قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھ لیں۔ ( واللہ اعلم) سوال:ہمارے ہاں جب جنازہ اٹھایا جاتا ہے تو کچھ لوگ بآواز بلند کلمہ شہادت کے الفاظ کہتے ہیں ، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ پھر دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر اذان دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے شیطان میت پر وسوسہ اندازی نہیں کر سکتا۔ کیا ایسا کرنا شرعی طور پر ثابت ہے ، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں؟ جواب: بلاشبہ ہمارے معاشرے میں کچھ کام ایسے ہیں جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں جیسا کہ سوال میں دو کاموں کا ذکر ہے ، اس کا ثبوت کتاب و سنت سے نہیں ملتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی جنازہ اٹھایا جاتا تھا ، لیکن حاضرین میں سے کوئی کلمہ شہادت کے الفاظ بآواز بلند نہیں کہتا تھا، اگر ایسا کرتا تو ضرور کتب حدیث میں اس کا ذکر ہوتا۔ اسی طرح میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر اذان دینے کا مسئلہ ہے ۔ اس کے متعلق بھی کتاب و سنت سے کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جس سے اس امر کا جواز ثابت ہوتا ہو۔ باقی رہی شیطان کی وسوسہ اندازی تو وہ انسان کی زندگی تک محدود ہے، مرنے کے بعد اسے کسی کے متعلق وسوسہ اندازی کا اختیار نہیں۔ قبر کے اندر فرشتوں کے سوالات کے جوابات ایمان کی بنیاد پر ہوں گے، وہاں شیطان کا قطعاً کوئی اختیار نہیں ہو گا کہ وہ غلط جوابات اس کی زبان سے جاری کرا سکے ۔ ہمارے نزدیک جنازہ لے جاتے وقت بآواز بلند کلمہ شہادت کے الفاظ کہنا اور میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر اذان دینا بدعت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جس نے ہمارے اس دین میں کسی نئے کام کو رواج دیا جو اس سے نہیں تو وہ مردود ہے۔ ‘‘[2] ہمیں چاہیے کہ کتاب و سنت سے تمسک کریں، اس کے علاوہ دوسری ہر چیز کو چھوڑ دیں ، اس میں ہماری کامیابی اور عزت و ناموس کا تحفظ ہے۔ ( واللہ اعلم) سوال:غیر محرم آدمی کسی عورت کے جنازے کو کاندھا دے سکتا ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی رو سے اس کی وضاحت کریں؟ جواب: جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے جنازے کے ساتھ جانا اور اسے کاندھا دینا اس کا حق ہے جو دوسرے
Flag Counter