Maktaba Wahhabi

432 - 452
رائے ہے، خرگوش کے حلال ہونے کے متعلق مستند روایت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کی ہے: ’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مرالظہر ان میں تھے کہ ایک خرگوش کا پیچھا کیا گیا ، لوگ اس کے پیچھے دوڑے لیکن تھک ہا کر بیٹھ گئے، میں اسے پکڑ کر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس لایا ، انہوں نے ذبح کر کے اس کے دونوں کولہے یا دونوں رانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا۔[1] ایک دوسری روایت میں الفاظ اس طرح ہیں: ’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ایک نوخیز مضبوط لڑکا تھا، میں نے ایک خرگوش کا شکار کیا اور اسے بھون لیا، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس کا پچھلا دھڑ مجھے دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا چنانچہ میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اسے قبول فرمایا۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس ہدیے کو قبول فرمانا اس کے حلال ہونے کی واضح دلیل ہے ، ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کو کھانے کی بھی صراحت ہے۔ [3] بہر حال خرگوش حلال ہے اور اس کو حرام قرار دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں، جس وجہ سے اسے حرام کہا جاتا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ( واللہ اعلم) سرکاری اہل کار کو تحفہ سوال:جو اہل کار سرکاری طور پر کسی کام کے لئے تعینات ہوتے ہیں ، ان کو تحفہ وغیرہ دینا اور ان کا تحائف قبول کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ، تفصیل سے ہماری راہنمائی فرمائیں؟ جواب: سرکاری طور پر جو آدمی کسی کے لئے تعینات ہے اور اسے باقاعدہ اس کام کی تنخواہ ملتی ہے تو ایسے لوگوں کو تحائف دینا اور ان کے تحائف قبول کرنا ناجائز اور حرام ہے کیونکہ وہ اس کام کرنے کی باقاعدہ حکومت سے تنخواہ لیتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جس شخص کو ہم کسی کام پر تعینات کریں اور ہم اسے اس کام کا مقررہ معاوضہ بھی دیں تو پھر وہ جو کچھ بھی اس تنخواہ کے علاوہ لے گا وہ خیانت ہو گی۔[4] سرکاری اہل کار کو چاہیے کہ وہ دیانت داری کے ساتھ اپنا کام سرانجام دے ، اس پر وہ کسی قسم کا تحفہ قبول نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا رشوت اور خیانت میں شامل ہے ہاں اگر تحفہ کسی غرض کے بغیر ہو اور اسے عہدہ سے پہلے بھی تحفہ دیا جاتا تھا تو اسے قبول کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو لازماً تحفہ دینے والا سرکاری اہل کار کو اپنی طرف مائل کر کے اپنے مقاصد کو اس کے ذریعے پورا کرنا چاہتاہے اور اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتا ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں سرکاری اہل کار کو تحفہ دینے اور اسے قبول کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کی سفارش کرے پھر اسے تحائف دیئے جائیں اور وہ انہیں قبول کرے تو یہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے کو آیاہے۔[5]
Flag Counter