Maktaba Wahhabi

477 - 452
1 کسی اہم ضرورت کے پیش نظر اسے ایک مقام سے دوسرے مقام پر تبدیل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی ایک مسجد کو دوسری جگہ منتقل کر دیا تھا۔[1] 2 کسی خاص مصلحت کی بناء پر اسے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شارع عام تنگ ہونے کی وجہ سے مسجد کا کچھ حصہ راستہ میں شامل کر دیا تھا۔[2] صورت مسؤلہ میں مسجد کی دوسری قسم معلوم ہوتی ہے ، اسے انتظامیہ جب چاہے تبدیل کر سکتی ہے اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ اگر تیسری قسم ہو تو بھی اس میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہے، خاص طور پر جب مریضوں کے آنے جانے میں وہ رکاوٹ کا باعث ہو۔ بہتر ہے کہ یہ مسئلہ افہام و تفہیم سے حل کیا جائے تاکہ وہاں کوئی فتنہ و فساد کھڑا نہ ہو۔ ( واللہ اعلم) حیلہ اسقاط سوال:ہمارے علاقہ میں ایک رسم رائج ہے کہ جب میت کو جنازہ گاہ لے جاتے ہیں تو ساتھ کچھ سامان اور رقم بھی لے جاتے ہیں، جنازے کے بعد دائرہ بنا کر اس سامان اور رقم کے ارد گرد بیٹھ جاتے ہیں اور اس پر قرآن مجید رکھ کر ایک دوسرے کو بخشتے رہتےہیں پھر رقم اور سامان لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، اس عمل سے وہ سمجھتے ہیں کہ میت بخشی گئی ہے، اسے حیلہ اسقاط کہا جاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: قرآن و حدیث اور اسلاف سے اس حیلہ اسقاط کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ، بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔ کیونکہ جو کام خیر القرون میں نہیں ہوا ( حالانکہ اس وقت بھی اس کے اسباب موجود تھے۔ حتیٰ کہ ائمہ اربعہ بلکہ ان کے گرامی قدر شاگردوں سے بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ اس حیلے سے یہ خیال کرنا کہ میت کے ذمے جو نمازیں ہیں وہ معاف ہو جائیں گی یہ بھی بلا دلیل ایک مفروضہ ہے۔ حالانکہ اگر کوئی زندہ شخص ، میت کی طرف سے نمازیں پڑھنا چاہے تاکہ اس سے معاف ہو جائیں تو اس کی بھی اجازت نہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ آیا کوئی دوسرے کی طرف سے نماز ادا کر سکتا ہے؟ تو آ پ نے فرمایا: ’’کوئی آدمی دوسرے کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ ‘‘[3] اسی طرح میت کی طرف سے روزے بھی نہیں رکھے جا سکتے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا روایت میں س بات کی صراحت ہے کہ کوئی آدمی دوسرے شخص کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا۔ بلکہ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے ماہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ ‘‘[4] جس حدیث میں میت کی طرف سے روزہ رکھنے کا ذکر ہے ۔ [5] اس سے مراد نذر کے روزے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
Flag Counter