Maktaba Wahhabi

444 - 452
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسی کو دعا دینے کے آداب سکھائے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ دعا کرنے میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ مذکورہ پہلی دعا اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حد سے تجاوز کرنا ہے کیونکہ دنیا میں د وام اور ہمیشگی محال ہے۔ ہمیشہ رہنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یہ کسی اور کے لئے نہیں مانگی جا سکتی ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ جو کچھ زمین میں ہے ، سب نے فنا ہونا ہے، صرف تمہارے رب کے چہرے کو بقا ہے جو صاحب جلال و عظمت ہے۔ ‘‘[1] اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب فرمایا: ’’ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ سے پہلے کسی آدمی کو بقاء اور دوام نہیں بخشا، اگر آپ فوت ہو جائیں تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے۔ ‘‘[2] ان تصریحات کی وجہ سے کسی کے لئے ہمیشہ رہنے کی دعا نہیں کرنی چاہیے، اسی طرح کسی کو یہ دعا دینا کہ اللہ آپ کو طویل عمر عطا فرمائے، یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ طول و بقا اچھی اور بری دونوں ممکن ہیں۔ وہ انسان انتہائی برا ہے جس کی عمر طویل ہو لیکن کردار انتہائی گندا ہو، اگر اس میں خیر و برکت کے الفاظ کا اضافہ کر دیا جائے تو اس میں چنداں حرج نہیں مثلاً یوں کہا جائے: ’’ اللہ خیر و برکت کے ساتھ آپ کو طویل عمر عطا فرمائے یا اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی اطاعت و فرمانبرداری میں دراز عمر عطا کرے۔ ‘‘ [3]بہر حال کسی کے لئے بھلائی کی دعا کرنی چاہیے، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے جو اس کے لئے وہی کچھ مانگتا ہے جو یہ دوسرے انسان کے لئے اللہ سےطلب کرتا ہے۔ ( واللہ اعلم) بگلے کی حلت سوال:سفید رنگ کا بگلا جو فصلوں میں عام دیکھا جاتا ہے جب انہیں پانی دیا گیا ہو ، قرآن و حدیث میں اس کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق کیا وارد ہے؟ جواب: اصل کے اعتبار سے ہر چیز حلال ہے اور حرام صرف وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا ہو اور جس سے انہوں نے خاموشی اختیار کی ہو وہ بھی معاف ہے چنانچہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے وہ ان اشیاء سے ہے جن سے اس نے درگذر فرما دیا ہے۔ [4] ’’ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ نبی ان کے لئے پاکیزہ اشیاء حلال قرار دیتا ہے اور خبیث اشیاء ان پر حرام کرتا ہے ۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ غیر خبیث اشیاء پاکیزہ اور حلال ہیں نیز حدیث بالا کے مطابق جس چیز کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے وہ بھی قابل معافی ہے، ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر رحمت کرتے ہوئے کچھ چیزوں سے خاموشی اختیار کی ہے لہٰذا تم ان کی کرید نہ کرو۔[5] اشیاء کی خباثت کو مندرجہ ذیل امور سے معلوم کیا جا سکتا ہے:
Flag Counter