Maktaba Wahhabi

116 - 452
ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ جس کی نماز عید رہ جائے وہ دو رکعت تکبیراتِ زوائد کے ساتھ ادا کرے خواہ چند ساتھی مل کر جماعت کا اہتمام کر لیں یا انفرادی طور پر پڑھ لیں، اسی طرح خواہ عید گاہ میں پڑھیں یا اپنے گھر ادا کریں، بہر حال انہیں پڑھنا چاہیے۔ (واللہ اعلم) پانچوں نمازوں کی پابندی سوال: قرآن و حدیث میں نماز پنجگانہ ادا کرنے کی بہت تاکید ہے لیکن ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اپنے مسلمان ہونے کی یہ شرط پیش کی کہ وہ صرف دو نمازیں پڑھے گا تو آپ نے یہ شرط قبول کر لی ، اس طرح وہ شخص مسلمان ہوا۔ اس کے متعلق بتائیں کہ یہ حدیث کہاں ہے اور کیسی ہے ؟ جواب: قرآن و حدیث میں نماز پنجگانہ کی پابندی پر بہت تاکید ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’جس شخص نے ان نمازوں کی حفاظت و پابندی کی تو وہ اس شخص کے لیے روز قیامت نور، دلیل اور نجات ہوں گی اور جس نے ان کی حفاظت نہ کی تو روز قیامت اس کے لیے نور، دلیل اور نجات نہیں ہو گی بلکہ وہ قارون، فرعون ، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔[1] اس طرح حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ثقیف قبیلے کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا تاکہ دینی ماحول دیکھ کر ان کے دل گداز ہوں۔ انھوں نے اسلام لانے کے لیے یہ شرائط پیش کیں کہ وہ جہاد نہیں کریں گے ، زرعی پیدا وار سے عشر نہیں دیں گے نیز نماز نہیں پڑھیں گے، اس کے علاوہ ہمارے قبیلے کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو ہم پر حاکم نہیں بنایا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ٹھیک ہے تم جہاد کے لیے نہیں جاؤ گے، نہ ہی تم سے عشر لیا جائے گا اور تم پر تمہارے علاوہ کسی دوسرے شخص کو حکمران نہیں بنایا جائے گا لیکن نماز کے متعلق چھوٹ نہیں کیونکہ جس دین میں نماز نہیں اس میں خیر و برکت کا کوئی پہلو نہیں۔[2] بہر حال نمازوں کی ادائیگی میں کچھ تخفیف تو ہو سکتی ہے لیکن اس کی چھوٹ کے متعلق کوئی گنجائش نہیں۔ سوال میں جس حدیث کا ذکر کیا گیا ہے، اس کی تفصیل حضرت نصر بن عاصم رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ لیث قبیلے کا ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنے اسلام لانے کے لیے یہ شرط پیش کی کہ وہ صرف دو نمازیں پڑھے گا تو آپ نے اس کی شرط کو قبول کر لیا۔ [3] اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پانچوں نمازوں میں سے اگر دو پڑھ لی جائیں تو گزارہ ہو سکتا ہے حالانکہ مذکورہ بالا احادیث کے پیش نظر یہ مفہوم انتہائی محل نظر ہے ، اس کے متعلق علما حدیث نے کئی ایک توجیہات پیش کی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب نماز یں دو ہی فرض تھیں، لیکن اس توجیہہ پر ہمارا دل مطمئن نہیں کیونکہ اگر دو نمازیں فرض تھیں تو اسے شرط لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی 2۔ممکن ہے با جماعت دو نمازیں ادا کرنے کی شرط لگائی ہو کہ صبح اور عشا کی نماز باجماعت پڑھوں گا اور کاروباری مصروفیات کی
Flag Counter