Maktaba Wahhabi

173 - 452
ہی ہوتا تھا، تاہم بوقت ضرورت مسجد میں جنازہ پڑھنا جائز ہے اور خواتین کی نماز جنازہ میں شرکت بھی جائز ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ انہوں نے مسجد میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھی تھی۔ [1] بلکہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام ازواج مطہرات نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تھی جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے پیغام بھیجا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لائیں تاکہ ہم ان کی نماز جنازہ پڑھ لیں، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، مسجد میں ان کے حجروں کےپاس ان کا جنازہ رکھا گیا اور انہوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ [2] لوگوں نے مسجد میں جنازہ لانا اچھا خیال نہ کیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے وضاحت فرمائی لیکن عورتوں کے جنازہ پڑھنے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا، لہٰذا اگر کسی بزرگ کی نماز جنازہ عورتیں مسجد میں ادا کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں، جیسا کہ حدیث بالا میں اس کی وضاحت ہے۔ واضح رہے کہ اسے بطور عادت اختیار نہ کیا جائے، اگر کبھی کبھار کسی بزر گ کی وفات پر عورتیں مسجد میں نماز جنازہ پڑھ لیں تو اس کا جواز حدیث سے ثابت ہے۔ ( واللہ اعلم) قبر پر قرآنی آیات پڑھنا سوال:ہمارے ہاں جب میت کو دفن کیا جاتا ہے تو اس کے سر کی جانب سورۂ بقرۃ کی ابتدائی آیات اور پاؤں کی طرف سورۃ بقرۃ کی آخری آیات پڑھی جاتی ہیں، اس طرح قرآنی آیات پڑھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: قبرستان ، قرآن کریم کی تلاوت کا محل نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں اس کے متعلق واضح اشارہ موجود ہے، آپ نے فرمایا: ’’ اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ، بے شک شیطان اس گھر سے فرار اختیار کرتا ہے جس میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔ ‘‘[3]  صحابہ کرام میں بھی کوئی اس کا فاعل یا قائل نہیں اور نہ کسی نے قبرستان میں قرآن خوانی کی ہے۔ صورت مسؤلہ کے جواز کے متعلق ایک روایت پیش کی جاتی ہے، جو حسب ذیل ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اسے نہ روک رکھو بلکہ اسے جلد دفن کرو اور دفن کرنے کے بعد اس کے سرہانے سورۃ بقرۃ کا ابتدائی حصہ اور اس کے پاؤں کی جانب اس سورت کا آخری حصہ پڑھا جائے۔ ‘‘صاحب مشکوٰۃ نے اس روایت کو شعب الایمان کے حوالہ سے بیان کیا ہے پھر فرمایا ہے کہ یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ [4] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ اس کی سند انتہائی ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی یحییٰ بن عبد اللہ بن ضحاک ضعیف ہے، اس نے ایوب بن نہیک سے اس کو بیان کیا ہے جسے ابو حاتم وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ امام ازدی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے متروک قرار دیا ہے۔[5]
Flag Counter