Maktaba Wahhabi

259 - 452
دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہیں ہو گا۔ ‘‘[1] بہر حال صورت مسؤلہ میں ایسے کام پر اجرت لینا جائز ہے اور شرعاً اس کی گنجائش موجود ہے ، اگرچہ بہتر یہ ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے۔ (واللہ اعلم) سونے کا ادھار کاروبار کرنا سوال: کیا سونے کا کاروبار ادھار میں کرنا جائز ہے ، اس میں اگر کوئی شرعی قباحت ہے تو اس کی وضاحت کریں۔ جواب: کاروبار کی دو صورتیں ہوتی ہیں: 1اشیا کا باہمی تبادلہ 2 قیمت ادا کر کے خرید و فروخت کرنا اشیا کے باہمی تبادلہ کی مزید دو صورتیں حسب ذیل ہیں : 1 ایک ہی جنس کی دو اشیا کا تبادلہ ۔ اس کے جائز ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں: ایک یہ کہ دونوں برابر، برابر ہوں اور دوسری یہ کہ نقد بنقد سودا ہو۔ جیسا کہ حدیث میں ’’سونا، سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے ، یہ تمام اشیا برابر برابر اور نقد بنقد فروخت کی جائیں، جو زیادہ لے یا زیادہ دے تو اس نے سودی کاروبار کیا ، سود لینے والے یا دینے والے دونوں گناہ میں برابر ہیں۔[2] 2 مختلف اجناس کی دو اشیا کا تبادلہ ۔ اس کے جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ نقد بنقد سودا ہونا چاہیے البتہ اس میں کمی بیشی جائز ہے۔ حدیث میں ہے: ’’اگر اجناس مختلف ہوں تو پھر جس طرح چاہو فروخت کرو مگر یہ سودا نقد بنقد ہونا چاہیے ۔ [3] سونے کا کاروبار اگر باہمی تبادلہ کی صورت میں ہے تو ناجائز ہے ہاں اگر نقدی کی صورت میں قیمت ادا کر کے خرید و فروخت کرتا ہے تو جائز ہے، جس طرح دوسری اشیا ء میں ادھار ہو سکتا ہے۔ (واللہ اعلم) نئے نوٹ لینے کے لیے زائد رقم دینا سوال: اسٹیٹ بینک کے ملازمین کرنسی کے نئے نوٹ تبدیل کرنے کے زائد پیسے لیتے ہیں، کیا شرعی طور پر ایسا کیا جا سکتا ہے ؟ جواب: ایک ملک کے کرنسی نوٹوں کا تبادلہ مسا وات اور برابری کی بنیاد پر کرنا جائز ہے کیونکہ نئے اور پرانے نوٹوں کی حیثیت اور مالیت ایک ہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر نئے نوٹوں کا لحاظ رکھتے ہوئے کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کیا جائے تو ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے، شریعت نے اسے صریح سود قرار دیا ہے۔ مثلاً ۱۱۰ روپے کے عوض ۱۰۰روپے کے نئے نوٹ لینا جائز نہیں ہو گا ، کیونکہ یہ ایک ہی جنس کے تبادلہ میں کمی بیشی کرنا ہے جس کی اسلام نے اجازت نہیں دی ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک ہی قسم کی کھجوروں کو دوسری قسم کی کھجوروں کے ساتھ اضافہ سے تبادلہ کرنا ناجائز ہے۔ [4] بلکہ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صریح سود قرار دیا ہے ۔[5] چنانچہ جہاں مقدارکا اعتبار ہوتا ہے
Flag Counter