Maktaba Wahhabi

270 - 452
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے شارح بخاری ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ بہنیں، بیٹیوں کے ہمراہ عصبہ بنتی ہیں ۔ اور بیٹیوں سے بچا ہوا ترکہ پاتی ہیں، اس بات میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ، البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف ہے کہ بہنیں محروم ہوں گی اور باقی ماندہ ترکہ بھی بیٹیوں پر رد کر دیا جائے گا لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف مرجوح ہے ۔ [1]بہر حال مرحوم کی جائیداد کو تین حصوں میں تقسیم کر لیا جائے ، دو حصے دونوں بیٹیوں کو اور ایک حصہ بہن کو بحیثیت عصبہ دے دیا جائے۔ (واللہ اعلم) مسئلہ وراثت سوال:ایک آدمی کے تین وارث زندہ ہیں ، بیوی، بیٹی اور پوتا ۔ اس نے ان کے حق میں وصیت نامہ لکھا ہے کہ میری کل جائیداد سے ۳۳فیصد بیوی کو ۳۳ فیصد بیٹی کو اور ۴۴ فیصد پوتے صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا جائے، کیا یہ وصیت جائزہے ، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب: کسی انسان کو ورثا کی موجودگی میں اپنے سارے مال کی وصیت کرنا جائز نہیں۔ مال کی تقسیم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ضابطہ میراث نازل فرمایا ہے، مرنے کے بعد اس ضابطہ میراث کے مطابق اس کا مال تقسیم ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ صدقہ کیا ہے کہ تم اپنے مال سے ایک تہائی کی وصیت کر سکتے ہو، تاکہ تمہارے نیک اعمال کے زیادہ ہونے کا باعث ہو۔‘‘[2] اس حدیث کے پیش نظر انسان اپنے مال سے زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ تک وصیت کر سکتاہے۔ لیکن وہ وصیت بھی کسی غیر وارث کے لیے ہو۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہےاب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت جائز نہیں۔[3]صورت مسؤلہ میں دو غیر شرعی چیزیں ہیں، ایک تو اپنے تمام مال کی وصیت کی ہے جو کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ دوسرے شرعی ورثا کو وصیت کی گئی ہے جو مندرجہ بالا حدیث کی خلاف ورزی ہے۔ ان دو غیر شرعی باتوں کی وجہ سے یہ وصیت کالعدم ہو گئی، اس کی اصلاح ضروری ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اگر کسی کو وصیت کر نے والے کی طرف سے طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہواور وہ ان کے ورثاکے درمیان صلح کروا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ ‘‘[4] چونکہ اس وصیت میں اپنے ورثا کے متعلق طرفداری اورحق تلفی کی گئی ہے لہذا اس کی اصلاح ضروری ہے ، اس کی اصلاح یہ ہے کہ اسے کالعدم قرار دیا جائے اور مر نے کے بعد درج ذیل شرح کے مطابق اس کی جائیداد تقسیم ہو گی۔ 1 اولاد کی موجودگی میں اس کی بیوی کو کل جائیداد سے آٹھواں حصہ دیا جائے گا۔ 2 اس کی بیٹی چونکہ ایک ہے اس لیے وہ اس کی جائیداد سے نصف کی حق دار ہو گی۔ 3 پو تا عصبہ ہے لہٰذا ورثا سے جو مال بچے گا وہ پو تے کو مل جا ئے گا۔ سہولت کے پیش نظر اس کی جائیداد کے کل چوبیس حصے
Flag Counter