Maktaba Wahhabi

160 - 452
جنات زیارت و قبور جنازے میں صفوں کا طاق ہونا سوال:جنازے کے موقع پر صفوں کے طاق ہونے کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے ، قرآن و سنت سے اس قسم کا اہتمام کیا حیثیت رکھتا ہے ، وضاحت فرمائیں؟ جواب: نماز جنازہ کے موقع پر طاق صفیں بنانے کا اہتمام کتاب و سنت سے ثابت نہیں، جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے جب حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا جنازہ پڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری دو صفیں بنائی تھیں۔ [1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں طاق صفوں کا اہتمام کرنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں بلکہ صفیں طاق ہوں یا جفت دونوں طرح جائز ہے۔ البتہ مالک بن حبیرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنازہ کے وقت تین صفیں بنانا مستحب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’ جو کوئی مسلمان فوت ہو جائے اور پھر اس پر مسلمانوں کی تین صفیں جنازہ پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت لازم کر دیتا ہے۔ ‘‘ [2] امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے نماز جنازہ میں تین صفوں کی فضیلت کا اثبات کیا ہے۔[3] لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی محمد بن اسحاق مدلس ہے ، تاہم کچھ اہل علم نے اسے حسن قرار دے کر مذکورہ مسئلے کا اثبات کیا ہے، ہمارے رجحان کے مطابق جنازے کے موقع پر طاق صفیں بنانے کا اہتمام کتاب و سنت سے ثابت نہیں ، یہ محض ایک تکلف ہے۔ ( واللہ اعلم) میت کو دوسرے شہر دفن کرنا سوال:کیا عقیدت کی وجہ سے کسی میت کو دوسرے شہر دفن کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے علاقے کے کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ اپنی میت کو دوسرے شہر جا کر دفن کرتے ہیں کیونکہ وہاں ان کے پیر دفن ہیں۔ کتاب و سنت میں اس کا کوئی ثبوت ہے؟ جواب: اصل بات تو یہ ہے کہ قیامت کے دن نجات کا باعث انسان کا کتاب و سنت پر مبنی عقیدہ اور نیک عمل ہو گا ، خواہ اسے کہیں بھی دفن کر دیا جائے۔ اگر عقیدہ اور عمل اچھا نہیں تو مدینہ طیبہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہونا بھی اس کے کچھ کام نہیں آئے گا۔ صورت مسؤلہ میں کتاب و سنت سے یہی ثابت ہے کہ میت جہاں فوت ہو اسے وہیں یعنی اس کے علاقہ میں ہی دفن کیا جائے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی میت کووادی حبشہ سے مکہ مکرمہ لایا گیا اور وہاں دفن
Flag Counter