Maktaba Wahhabi

281 - 452
’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے لہذا کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔ ‘‘[1] اس قسم کی ناجائز وصیت پر عمل کرنا شرعاًدرست نہیں بلکہ اس کی اصلاح کرنا ضروری ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ہاں جو شخص وصیت کر نے والے کی طرف سے جانبداری یا کسی کی حق تلفی کا خطرہ محسوس کرے اور وہ اس کی اصلاح کر دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ‘‘[2]ہمارے رجحان کے مطابق یہ وصیت ناجائز ہے اور اس پر عمل کرنا شرعاً درست نہیں۔ (واللہ اعلم) مسئلہ وراثت سوال:ایک کرم الٰہی شخص غیر شادی شدہ فوت ہوا، اس کا کوئی حقیقی یا پدری بہن بھائی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے والدین زندہ ہیں، صرف ایک مادری بھائی موجود ہے۔ شرعی تقسیم کے وقت اس مادری بھائی کو مرحوم کے تمام تر کہ کا حقدار قرار دیا گیا، فوتیدگی کے چند ماہ بعد کچھ افراد نے دعویٰ کیا کہ وہ مرحوم کے داداکے بھائی کے پوتے ہیں لہذا ہم بھی مرحوم کے ترکہ میں شریک ہیں ، لیکن وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت کیلئے کوئی گواہ وغیرہ نہ پیش کر سکے، عدالت نے فیصلہ دیا کہ ماں شریک بھائی کل ترکہ کا وارث ہو گا اور مد عیان ، عدم ثبوت کی وجہ سے عصبہ رشتہ دار نہیں بن سکتے۔ اب مسئلہ در پیش یہ ہے کہ اگر ماں شریک بھائی عدالتی فیصلہ کے مطابق کل ترکہ لے لے تو اس پر دنیا و آخرت میں کوئی باز پرس تو نہیں ہو گی؟ اس کے متعلق آپ کی راہنمائی درکار ہے۔ جواب: قرآن کریم میں مادری بہن بھائیوں کا حصہ بیان ہوا ہے کہ اگر ایک ہے تو کل جائیداد سے چھٹا حصہ اور متعدد ہیں تو سب۳/۱ میں برابر کے شریک ہیں۔[3] چونکہ صورت مسؤلہ میں مادری بھائی کے علاوہ اور کوئی رشتہ دار موجود نہیں ، لہذا وہ میت کی تمام جائیداد کا حقدار ہو گا، لیکن فوتیدگی کے چند ماہ بعد کچھ افراد نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم میت کے دادا کے بھائی کے پوتے ہیں لہذا ہمیں بھی مرحوم کی جائیداد میں شریک کیا جائے، شریعت میں صرف دعویٰ کر نے سے کسی چیز کا حقدار قرار نہیں پا تا بلکہ اسے دعویٰ کے ثبوت کے لیے گواہ در کار ہوتے ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’اگر لو گوں کو محض دعویٰ کی بنا پر چیز دے دی جائے تو لوگ دوسرے افراد کی جان و مال پر دعویٰ کردیں۔[4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق مزید فرمایا:’’گواہی پیش کرنا مدعی کا فرض ہے اور مدعا علیہ کے ذمے قسم اٹھانا ہے ۔‘‘[5] صورت مسؤلہ میں مدعیان اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے گواہی نہیں پیش کر سکے لہذا عدالت کا فیصلہ صحیح ہے لیکن مدعی کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جج کے فیصلہ کر نے سے حرام چیز حلال اور حلال چیز حرام نہیں ہو جا تی ، اگر وہ جانتا ہے کہ مدعیان بر حق ہیں اگر چہ وہ گواہ پیش نہیں کر سکے تو اس کیلئے مدعی کا حق لینا جائز نہیں جس کا جج اسے کا حق دار قرار دے چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس سلسلہ میں بہت واضح ہے کہ اگر میں کسی کے حق میں فیصلہ دے دوں جو اس کا نہیں تو وہ اسے نہ لے ، میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔[6] واللہ اعلم
Flag Counter