Maktaba Wahhabi

330 - 452
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ ہے کہ اس رضاعت کا اعتبار ہو گا جو دو سال کے دوران ہو۔[1] بہر حال اس رضاعت کا اعتبار ہو گا جِس میں دو سال کے دوران کم از کم پانچ دفعہ دودھ پیا جائے۔ صورت مسؤلہ میں سائلہ کو چاہیے کہ وہ شکوک و شبہات کا شکار نہ ہو ،محض ایک دفعہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ ( واللہ اعلم) جہیز کی شرعی حیثیت سوال:ہمارے معاشرہ میں بچی کی شادی کے موقع پر جہیز کو لازمی قرار دیا گیا ہے، جس کے پاس وسائل نہیں ہوتے وہ کسی سے قرض لے کر اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرتا ہے، اسلام، ہمارے لئے ایک نظام زندگی ہے، اس میں جہیز دینے یا لینے کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ جواب: لفظ جہیز عربی لفظ ’’ جہاز‘‘ سے ماخوذ ہے، احادیث میں یہ لفظ دو مفہوم میں استعمال ہوا ہے: 1 رخصتی کے موقع پر باپ کا اپنی بچی کو نیا گھر بسانے کے لئے کچھ سامانِ ضرورت دینا۔ 2 دلہن کو شب زفاف کے لئے تیار کرنا اور اسے عمدہ لباس سے آراستہ کرنا۔ رخصتی کے موقع پر لڑکی کو جہیز دینا ایک معاشرتی مسئلہ ہے جسے ہم نے انتہاء پسندی کی سان پر چڑھا دیا ہے، ہمارے ہاں موجودہ جہیز کی صورت یہ ہے کہ بچی کو شادی کے موقع پر اسے لازمی چیز بنا لیا گیا ہے، خواہ کسی کے وسائل اس کے متحمل نہ ہوں اور اسے قرض پکڑ کر یہ ’’ فریضہ‘‘ سرانجام دینا ہوتا ہے۔ پھر ہم نے ضروریات زندگی کے علاوہ تمام تمدنی سہولتوں اور آسائشوں تک اسے وسیع کر دیا ہے خواہ لڑکے والوں کے ہاں اسے رکھنے کے لئے جگہ میسر نہ ہو ۔ نیز جو بچی جہیز کے بغیر سسرال جاتی ہے سسرال والے اس کا جینا محال کر دیتے ہیں، اسے ہر طرف طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ہم نے اسے وراثت کے قائم مقام بنا لیا ہے اور اس بنیاد پر عورتوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا۔ کچھ حضرات اس کے برعکس دوسری انتہا پر ہیں ، وہ اسے بالکل حرام قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک فطری بات ہے کہ والد جب اپنی لخت جگر کو شادی کے موقع پر گھر سے رخصت کرتا ہے تو حسب استطاعت کچھ سامان ضرورت دینادونوں کے لئے باعث فرحت و انبساط ہے۔ محدثین کرام نے اس مسئلہ کو اپنی کتب حدیث میں بیان کیا ہے چنانچہ امام نسائی نے اپنی سنن میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ باب جھازالرجل ابنتہ‘‘ باپ کی طرف سے اپنی بیٹی کو(شادی کے موقع پر)سامان ضرورت دینا۔پھر حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چادر ، مشکیزہ اور ایک تکیہ دیا جس میں روئی کے بجائے اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔[2] ایک روایت میں مذکورہ سامان کے ساتھ چکی اور دو مٹکوں کا بھی ذکر ہے۔ [3] ان روایات کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب انتہائی مفلس آدمی تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مدد کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا،جب وہ جوان ہوئے تو اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ان سے کر دیا،اس موقع پر ان کا الگ گھر بسانے کے لئے ضروری سامان زندگی انہیں مہیا کر دیا گیا، اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مالی حالت بھی انتہائی
Flag Counter