Maktaba Wahhabi

189 - 452
اسے زکوۃ فطرانہ دیا جا سکتاہے، اس کے لیے مسجد میں بسلسلہ ناظرہ قرآن مدرس ہونا ضروری نہیں ۔ کچھ حضرات مصارف زکوۃ میں فی سبیل اللہ کے مفہوم کو اس قدر وسعت دیتے ہیں کہ ہر قسم کے رفاہی کاموں پر زکوۃ صرف کر نے کو جائز خیال کرتے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو زکوۃ کو آٹھ مصارف میں محدود کرنا بے مقصد ٹھہر تا ہے کیونکہ اس طرح فی سبیل اللہ کی مد اس قدر وسیع ہو جا تی ہے کہ ہر قسم کے کار خیر اس میں شامل ہو جا تے ہیں۔ چنانچہ علامہ البانی مرحوم لکھتے ہیں : ’’آیت مصارف میں فی سبیل اللہ کی یہ تفسیر کہ اس سے جملہ اعمال خیر مراد ہوں گے ، سلف میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ اگر معاملہ اس طرح ہو تا تو آیت کریمہ میں زکوۃ کو صرف آٹھ مصارف میں محدود کر نے کی کیا ضرورت تھی ۔‘‘[1] ہمارے رجحان کے مطابق آیت میں ’’ فی سبیل اللہ ‘‘ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے جیسا کہ مختلف احادیث سے اس کی وضاحت ہو تی ہے ، کیونکہ اس سے مراد براہ راست اعلاء کلمۃ اللہ مقصود ہو تا ہے ، دینی مدارس بھی اسی مد میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو بھی فی سبیل اللہ میں شامل فرمایا ہے جیسا کہ آپ نے حضرت ام معقل اسد یہ کو اس اونٹ پر حج کر نے کا حکم دیا جسے ان کے شوہر نے فی سبیل اللہ وقف کر دیا تھا، آپ نے اس وقت فرمایا تھا کہ حج بھی فی سبیل اللہ ہے۔[2] اس لیے صورت مسؤلہ میں زکوۃ اور فطرانہ کی رقم مسجد میں بسلسلہ ناظرہ قرآن بچوں کو پڑھانے والے مدرس کو نہیں دی جاسکتی۔ ڈیری فارم پر زکوۃ  سوال: لو گوں نے بھینسوں اور گائیوں کے فارم بنا رکھے ہیں، ان سے زکوۃ کیسے ادا ہو گی، زکوۃ کے لیے جانوروں کا حساب ہو گا یا ان کی پیدا وار یعنی دودھ وغیرہ کے حساب سے زکوۃ ادا کرنا ہو گی ، قرآن و حدیث کے مطابق وضاحت فرمائیں۔ جواب: پالتو جانوروں کی چار اقسام حسب ذیل ہیں۔ 1 وہ جانور جو سال کے اکثر حصہ میں باہر چر تے ہوں، ان کے لیے قیمتاً چارہ نہیں خریدا جا تا، ایسے جانوروں کی زکوۃ کے لیے تین شرائط ہیں۔ (الف) نصاب کو پہنچ جائیں ۔ (ب) ان پر سال گزر جائے ۔ (ج) وہ جنگلات میں چرنے والے ہوں۔ 2 جانور گھروں یا ڈیری فارم میں رکھے ہو تے ہیں، ان کے لیے چارہ خریدا جا تا ہے یا کاشت کیا جا تا ہے وہ صرف دودھ یا افزائش نسل کے لیے رکھے جا تے ہیں، ایسے جانوروں کی پیدا وار (دودھ) کی آمدن اگر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس سے زکوۃ ادا کرنا ہو گی۔ 3 وہ جانور جو کھیتی باڑی یا سواری کے لیے رکھے جا تے ہیں ، ان میں زکوۃ نہیں ہو تی۔ 4 وہ جانور جو تجارت کے لیے رکھے جا تے ہیں، ان کی قیمت میں زکوۃ ہو گی ، مثلاً ایک بھینس اگر لاکھ روپے کی ہے تو اس میں اڑھائی ہزار روپیہ بطور زکوۃ ادا کرنا ہو گا۔ صورت مسؤلہ میں اسی تفصیل کے مطابق اگر ڈیری فارم میں گائے بھینس صرف دودھ کے لیے رکھی گئی ہیں تو ان کے دودھ کا حساب ہو گا اس سے حاصل ہو نے والی رقم اگر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس
Flag Counter