Maktaba Wahhabi

437 - 452
ایک روایت کی تحقیق سوال:میرا یہ معمول ہے کہ میں فجر اور مغرب کی نماز کے بعد کسی سے ہم کلام ہونے سے پہلے یہ دُعا پڑھتا ہوں: ’’اللھم اجرني من النار‘‘ اے اللہ ! مجھے آگ سے پناہ عطا فرما۔ لیکن ہمارے امام مسجد نے مجھے بتایا ہے کہ اس حدیث کی سندکمزور ہے، آپ اس کی وضاحت فرمائیں؟ جواب: مذکورہ دعا مولانا عطا ء اللہ حنیف نے ’’ پیارے رسول کی پیاری دعائیں ‘‘ میں صبح و شام کے وقت کی دعائیں کے زیر عنوان چودھویں حدیث کے تحت لکھی ہے اور مشکوٰۃ المصابیح کا حوالہ دیا ہے، صاحب مشکوٰۃ نے ابو داؤد سے نقل کی ہے، اس پر علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ و إسنادہ ضعیف ‘‘لکھا ہے، غالباً مذکورہ امام مسجد نے انہی الفاظ کو بنیاد بنا کر اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، یہ روایت درج ذیل کتب حدیث میں مروی ہے: ٭ ابو داؤد ، الصلوٰۃ : ۵۰۷۹ ، ٭ امام احمد ص ۲۳۴ ج۴، ٭ صحیح ابن حبان حدیث نمبر : ۲۳۴۶۔ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔[1] لیکن مسلم بن حارث رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والا اس کا بیٹا حارث بن مسلم مجہول ہے، اس لئے یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ خود ہی فرماتے ہیں: اگرچہ ابن حبان نے اس روایت کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے لیکن دارقطنی نے اس کے راوی حارث بن مسلم کو مجہول قرار دیا ہے اور وہ اپنے باپ سے بیان کرنے میں منفرد ہے، اس لئے ابن حبان کا اسے صحیح کہنا بہت بعید ہے۔[2] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے، لہٰذا اس دعا کے بجائے کثرت کے ساتھ یہ دعا پڑھی جائے: ’’ اللھم أعوذبك من النار‘‘ کیونکہ حدیث میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے آگ کی پناہ مانگتا ہے تو خود آگ کہتی ہے کہ اے اللہ! اسے آگ سے پناہ دے۔ [3] اس کی سند بھی صحیح ہے۔ ( واللہ اعلم) ’’اتفاقاً ایسا ہوا‘‘الفاظ کہنا سوال:’’اتفاقاً ایسا ہوا‘‘ کیا اس قسم کے الفاظ استعمال کئے جا سکتے ہیں کیونکہ بظاہر یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی صفت علم کے منافی معلوم ہوتے ہیں، وضاحت فرمائیں؟ جواب: اگر کوئی چیز غیر شعوری اور غیر متوقع طور پر سامنے آ جائے تو اس وقت ’’ اتفاقاً ایسا ہوا‘‘ کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ، انسان کے حوالے سے کسی چیز کا اتفاقاً پیش آ جانا تو امر واقع ہے، ایسے حالات میں ’’ اتفاق ‘‘ کے الفاظ استعمال کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔ احادیث میں بکثرت اس طرح کے اتفاقات مروی ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ایسا مروی ہے: ’’ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہویں تاکہ آپ سے چکی پیسنے کی مشقت بیان کریں، کیونکہ آپ کو اطلاع ملی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غلام آئے ہیں، لیکن اتفاق سے ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہ ہو سکی تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا....‘‘ [4]
Flag Counter