Maktaba Wahhabi

296 - 452
جواب: مرنے کے بعد ترکہ کی تقسیم میں یہ اصول رکھا گیا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کا رشتہ دار محروم ہوتاہے، امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’پوتے کی وراثت جبکہ بیٹا نہ ہو ۔ ‘‘[1] پھر اسے ثابت کر نے کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول پیش کیا ہے کہ پو تا، بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتا ، پھر ایک حدیث ذکر کی ہے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ مقررہ حصے ، حصے داروں کو دینے کے بعد جوبچ جائے وہ میت کے قریبی مذکر رشتے داروں کو دیا جائے گا۔ ‘‘[2] قریبی مذکر رشتہ دار کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ دور والے رشتہ دار ، قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں محروم ہوں گے ، اس بنا پر یہ طے شدہ اصول ہے کہ بیٹوں کی موجودگی میں پو تے کو کچھ نہیں ملتا خواہ پوتا یتیم ہی کیوں نہ ہو، شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ فوت ہو نے والا وصیت کے ذریعے اپنی جائیداد سے کچھ حصہ نامزد کر دے ، یہ کچھ حصہ کسی صورت میں ۳/۱ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ صورت مسؤلہ میں مرحوم کی وصیت غلط ہے ، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی پو تے کی بہنوں کو وراثت سے کچھ ملے گا ۔ ہاں اگر شرعی ورثا اپنی مرضی سے کچھ یتیم بچوں اور بچیوں کو دینا چاہیں تو اس پر شرعاً کوئی قد غن نہیں ہے لیکن وراثت سے انہیں بیٹوں کی موجودگی میں کچھ نہیں ملے گا۔ (واللہ اعلم ) ترکہ سے حج کروانا سوال:ایک عورت اپنے شوہر، والد ور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر فوت ہو ئی ہے، اس کی ایک بچی ، اس کی وفات سے پہلے فوت ہو چکی تھی، اس نے کچھ رقم چھوڑی ہے، ورثا کو کتنا حصہ ملے گا، نیز اگر اس نقدی سے کسی کو حج کروا دیا جائے تو کیا یہ صحیح ہے، کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں؟ جواب: اگر وہ اپنی زندگی میں حج کر نے پر قادر تھی اور شرائط حج بھی میسر تھیں تو اس کے ترکہ سے کسی کو حج کروا دیا جائے اگر وہ زندگی میں حج کر نے کی طاقت نہ رکھتی تھی تو ورثا کی رضا مندی سے کسی دوسرے کو حج کرایا جا سکتا ہے، حج و عمرہ سے اگر کچھ رقم بچ جائے تو اس کے ذمے قرض کی ادائیگی پھر وصیت کا نفاذ ہو نا چاہیے اگر قرض اور وصیت نہیں ہے تو اس کی نقدی کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے، ایک حصہ خاوند کو دیا جائے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر تمہاری بیویوں کی اولاد نہ ہو تو ان کے ترکہ سے تمہارا نصف حصہ ہے۔ ‘‘[3] جو بچی ماں کی وفات سے پہلے فوت ہو چکی ہے وہ خاوند کے حصہ پر اثر انداز نہیں ہو گی، دوسرا حصہ مرحومہ کے باپ کو دے دیا جائے کیونکہ وہ عصبہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’مقررہ حصے حقداروں کو دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ داروں کا ہے ۔[4] میت کے بہن بھائی باپ کی وجہ سے ساقط ہیں، انہیں کچھ نہیں ملے گا ۔ اسی طرح جو بچی ماں سے پہلے فوت ہو گئی ہے اسے بھی کچھ نہیں ملے گا کیونکہ تقسیم میراث کی شرائط میں سے ایک یہ بھی شرط ہے کہ مورّث کی وفات کے بعد وارث زندہ ہو۔ اس مقام پر یہ شرط مفقود ہے۔ (واللہ اعلم )
Flag Counter