Maktaba Wahhabi

397 - 452
راوی ابو اسامہ بیان کرتے ہیں کہ نقیع، مدینہ طیبہ سے ایک جانب جگہ کا نام ہے جو بقیع سے الگ ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہندی لگانا عورتوں کی زینت ہے اور مرد حضرات کو اس کی اجازت نہیں، اس ممانعت کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوئی جسے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد حضرات کو زعفران لگانے سے منع کیا ہے۔ [1] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’ مردوں کو ہاتھ اور پاؤں رنگنے کی ممانعت ہے ہاں بطور دواء مہندی استعمال کی جا سکتی ہے۔‘‘ [2] بطور دواء استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گرمی یا آگ سے جلنے کی وجہ سے ہاتھ اور پاؤں پر چھالے پڑ جائیں تو زخموں پر مہندی لگانے میں چنداں حرج نہیں لیکن بطور فیشن مہندی کے ساتھ اپنے ہاتھ اور پاؤں رنگنا مردوں کے لئے جائز نہیں، لہٰذا شادی کے موقع پر مرد حضرات کو مہندی استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ( واللہ اعلم) دینی کتب واپس کرنے سے انکار سوال:ہم نے اپنی مسجد میں ایک دینی لائبریری بنا رکھی ہے، لیکن جو حضرات کتاب لے جاتے ہیں اسے واپس نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ علم کی نشر و اشاعت پڑھنے پڑھانے سے ہے، لائبریری میں رکھنے سے نہیں، بلکہ کچھ ’’ اہل علم ‘‘ اسے کتمان علم سے تعبیر کرتے ہیں ، اس کی وضاحت کریں؟ جواب: مساجد میں لائبریری کا قیام ایک مستحسن اقدام ہے کہ مسجد میں آنے والے حضرات دینی کتب سے استفادہ کریں اور فارغ اوقات میں ان کا مطالعہ کریں ، لیکن سوال میں ذکر کردہ صورت انتہائی تکلیف دہ ہے بلکہ اس سے زیادہ پریشان کن یہ معاملہ ہے کہ مساجد میں قائم کردہ لائبریری سے خطیب حضرات امہات الکتب عاریتاً لینے کے بعد انہیں واپس نہیں کرتے بلکہ واپس کرنے کو ’’ کتمان علم‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ دراصل اس نفسانفسی کے دور میں اخلاقی اقدار بدل گئی ہیں، روزمرہ کی اشیاء عاریتاً دینے کا رواج باہمی تعاون اور ہمدردی کا آئینہ دار تھا، جواب معدوم ہوتا جا رہاہے۔ اس وجہ سے لوگ عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنے کا نام ہی نہیں لیتے بلکہ ان کے خیال کے مطابق مانگی ہوئی چیز کی واپسی کا مطالبہ کرنا شرافت سے بعید ہے، خاص کر دینی کتب کا معاملہ تو انتہائی سنگین صورت حال سے دوچار ہے۔ اہل علم اور خطباء حضرات کو اس کے متعلق کچھ غور کرنا چاہیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جس ہاتھ نےجو کچھ لیا ہے ، اس پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔‘‘[3] بلکہ حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے بطور خاص ذکر کیا کہ ’’ مانگی ہوئی چیز واپس کی جائے۔‘‘ [4] ان احادیث کا تقاضا ہے کہ مانگی ہوئی چیز ( کتب وغیرہ ) کا اگر نقصان ہو جائے، یا گم ہو جائے یا ضائع ہو جائے تو لینے والے کو اس کی جگہ نئی چیز یا اس کی قیمت واپس کرنا پڑے گی۔ بہر حال مانگی ہوئی چیز کو شیر مادر سمجھ کر اسے ہضم کرنے کی قطعاً اجازت نہیں، خصوصاً عاریۃً لی ہوئی دینی کتب کے متعلق ہمیں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ ( واللہ اعلم)
Flag Counter