Maktaba Wahhabi

378 - 452
گھریلو عائلی زندگی کے تنازعات میں مسئلہ خدمت ہی زیادہ کارفرما ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر ساس اپنی بہو کو پاؤں کا جوتا خیال کرتی ہے جبکہ بیوی یہ سمجھتی ہے کہ میرا نکاح جس خاوند سے ہوا ہے وہی مجھ سے واجبی سی خدمت لینے کا روادار ہے، اس سے گھریلو جھکڑے جنم لیتے ہیں اور زندگی اجیرن اور زہر کی طرح کڑوی بن جاتی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں دینی تعلیم سے آراستہ لڑکیاں جب شادی کے بعد اپنے خاوند کے گھر جاتی ہیں تو ان کے جذبہ دینداری کو خوب کچلا جاتا ہے اور بات بات پر ان کی دینداری کو ہدف تنقید بنایاجاتا ہے۔ مجھے کئی ایک ایسی بچیوں کے فون آتے ہیں ، جس میں وہ اپنی اس آزمائش کا واویلا کرتی ہیں، ایک لڑکی جو پردے کی پابند ہوتی ہے شادی کے بعد اس کے دیور اس کی چادر تار تار کر دیتے ہیں اور خاوند دیوث بن کر کھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا ہوتا ہے، ایک لڑکی جس کا خاوند گھر سے باہر ہے اور وہ اس کی عدم موجودگی میں سادگی کے ساتھ زندگی کے ایام گزارتی ہے ، زیور اور بھڑکیلا لباس نہیں پہنتی تو خاوند کی طرف سے اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ تم میری عدم موجودگی میں بھی زیب و زینت سے آراستہ رہا کرو تاکہ مجھے اپنے بھائیوں کی طرف سے طعنے وغیرہ نہ ملیں۔ دوسری طرف کچھ تعلیم یافتہ ایسی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں کہ شادی کے بعد ان کا علم انہیں غرور و تکبر میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ وہ کسی رشتہ دار کی مزاج پرسی کرنے کو عار خیال کرتی ہیں بلکہ اسے اپنی دینداری کے خلاف سمجھتی ہیں جیسا کہ سوال میں اس کاذکر کیا گیا ہے، اگر کوئی عورت اپنی چادر اور چار دیواری کا تحفظ کرتےہوئے خاوند کے قریبی رشتہ داروں کی حال گیری اور مزاج پرسی کرتی ہے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، اگر اپنی مصنوعی دینداری کو قائم رکھتے ہوئے ترش روئی اور قطع تعلقی کا مظاہرہ کیا جائے تو اس رویے کے منفی اثرات بھی بر آمد ہو سکتے ہیں، بلکہ بیسیوں واقعات ہمارے علم میں ہیں کہ خاوند نے اپنی بیوی کو شک مزاجی بلکہ بے مروتی کے پیش نظر اسے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا جبکہ ہماری اسلاف خواتین کےایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ شب عروسی کے بعد خود دلہن نے ولیمہ کے لئے کھانا تیارکیا اور خود ہی مہمانوں کے ہاں اسے پیش فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابو اُسید ساعدی رضی اللہ عنہ کی جب شادی ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے لئے دعوتِ ولیمہ کا اہتمام کیا، اس وقت ان کی دلہن نے ہی کھانا تیار کیا اور اسے مہمانوں کےلیے پیش کیا ۔ [1] بلکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:’’ اس دن دلہن ہونے کے باوجود ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ہی ان مہمانوں کی خدمت گزار تھی۔ ‘‘[2] اس حدیث کے پیش نظر ہیں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا چاہیے، اپنے پردے کےتحفظ کے ساتھ اگر مہمانوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ مزاج پرسی کر لی جائے تو شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور نہ ہی اسلام اس قسم کے خشک زہد کی اجازت دیتا ہے۔ میرے علم میں چند گھرانے ایسے بھی ہیں کہ وہ بیوی کے خشک رویے کے پیش نظر انتہائی قریبی رشتے داروں سے کٹ گئے ہیں اور آپس میں تعلقات بھی خرب ہو گئے۔ ہمیں اس بات کا بھی علم ہے کہ کچھ خاوند سہل پرست اور کچھ انتہا پسند بھی ہوتے ہیں، ان کی سہل پرستی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنی بیوی کو حکم دیتےہیں کہ تو نے میرے فلاں دوست سے پردہ نہیں کرنا ہے اور میرے فلاں
Flag Counter