Maktaba Wahhabi

418 - 452
کہ حائضہ عورت روزے کی قضاء تو دیتی ہے لیکن اس کے لئے نماز کی قضا دینا کیوں ضروری نہیں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سوال ناپسند کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ تو حروریہ معلوم ہوتی ہے۔‘‘[1] ٭ تکلف کرتے ہوئے کسی چیز کی گہرائی اور اس کی حقیقت کے متعلق سوال کرنا ۔ جیسا کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک حوض کے متعلق اس کے مالک سے دریافت کیا تھا کہ یہاں درندوں کی آمد و رفت تو نہیں ہوتی؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سوال کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا: تجھے اس کے متعلق ہمیں بتانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ [2] ٭ ایسے سوالات جن میں عقل و قیاس کے ذریعے کتاب و سنت کی صریح نصوص کا رد مقصود ہو۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ شکم مادر میں قتل ہونے والےبچے کے متعلق فیصلہ فرمایا تھا کہ اس کے بدلے ایک لونڈی یا غلام تاوان دیا جائے، تو جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا کہنے لگا کہ میں اس بچے کا تاوان کیوں دوں جس نے کھایا ہے نہ پیا ہے اور نہ وہ بولا اور چلا ہے، ایسے بچے کا خون تو رائیگاں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے انداز گفتگو کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا: ’’ یہ تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ [3] ٭ متشابہات کے متعلق سوالات کرنا بھی ممنوعہ قبیل سے ہے۔ جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کسی نے یہ آیت پڑھی: ’’رحمٰن نے اپنے عرش پر قرار پکڑا ۔ ‘‘ (طٰہٰ:۵) پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ استواء کیا ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’استواء تو معروف ہے ، اس کی کیفیت نامعلوم ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘[4] ٭ اسلاف کے باہمی مشاجرات کے متعلق سوالات کرنا۔ جیسا کہ اہل صفین کے بارے میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے ان کے خون سے میرے ہاتھوں کو محفوظ رکھا ، میں نہیں چاہتا کہ میں اپنی زبان کو اس میں ملوث کروں۔ ‘‘[5] ٭ کٹ بحثی ، کٹ حجتی اور دوسرے فریق کو لا جواب اور خاموش کرنے کے لئے سوالات کرنا۔ جیسا کہ مشرکین اور یہود مدینہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبات اور سوالات کرتے تھے۔ ان کا ہر گز مطلب یہ نہ تھا کہ اگر انہیں معقول جواب مل جائے تو حق کو تسلیم کر لیں گے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کے سوالات میں الجھا کر کم از کم دوسروں کو حق سے دور رکھا جائے، قرآن کریم نے ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے۔ [6] ٭ بے ضرورت سوالات گھڑ گھڑ کر ان کی تحقیقات میں دماغ سوزی کرنا۔ جیسا کہ زلیخا کی شادی حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی تھی یا نہیں؟ اصحاب کہف کے کتے کا رنگ کیسا تھا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام کیا تھا؟ اس قسم کے سوالات ممنوع ہیں کیونکہ اس میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا ہے۔ ٭ فرضی مسائل کھڑے کر کے ان کے متعلق غور و خوض کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے ایک ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جس کا ابھی وقوع نہیں ہوا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
Flag Counter