Maktaba Wahhabi

383 - 452
٭ داڑھی سے چھیڑ چھاڑ کرنا یہود و نصاریٰ اور مشرکین و مجوس کا عمل ہے ، جبکہ ہمیں اس سلسلہ میں ان کی مخالفت کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو۔ ‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرنے کے متعلق فرمایا : ’’ تم اہل کتاب کی مخالفت کرو اپنی داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو۔‘‘ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایرانی مجوسیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’ یہ لوگ اپنی مونچھیں بڑھاتے ہیں اور داڑھی منڈواتے ہیں، تم ان کی مخالفت کرو، اپنی داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں چھوٹی کرو۔‘‘ [3] ٭ داڑھی بڑھانا امور فطرت سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ فطری امور دس ہیں، مونچھیں کتروانا، داڑھی بڑھانا ، مسواک کرنا ، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن تراشنا ، جوڑوں کا دھونا، بغلوں کے بال اکھیڑنا ، زیر ناف بالوں کی صفائی کرنا، استنجا کرنا اور کلی کرنا۔ ‘‘[4] ان امور کا اختیار کرنا اس قدر اہم ہے گویا جبلی اور خلقی ہیں، تمام انبیائے کرام نے ان امور کا التزام کیا ہے اور یہ امور اسلامی شعار بھی ہیں۔ اس حدیث کے پیش نظر داڑھی کو اپنی فطرتی حالت میں رہنے دیا جائے اور اس کے ساتھ کوئی غیر فطرتی عمل نہ کیا جائے۔ ٭ قرآن کریم میں ابلیس لعین کے حوالے سے یہ بیان ہوا ہے کہ میں انہیں حکم دوں گا چنانچہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خلقت کو تبدیل کریں گے۔ [5] اس آیت کے پیش نظر جن امور فطرت میں اللہ تعالیٰ نے تبدیلی کرنے کا حکم دیا ہے وہ جائز اور مباح ہیں مثلاً ختنہ کرنا، زیر ناف بال صاف کرنا ، البتہ داڑھی کے تعلق تبدیلی کرنے کا کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا ہے۔ لہٰذا اس کی کانٹ چھانٹ کرنا ان شیطانی امور سے ہے جن کا ابلیس نے اولاد آدم کو حکم دیا۔ اور وہ اس کی بجا آوری کر رہے ہیں، اس پہلو سے بھی داڑھی کے معاملہ پر غور کرنا چاہیے۔ نیز اس سے داڑھی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ اس کا اسلام میں کیامقام ہے۔ ٭ ہمیں نسوانی مشابہت کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ حدیث میں ایسے مردوں پر لعنت کی گئی ہے جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں کو بھی ملعون قرار دیا گیا ہے جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔ [6] عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی، ہم داڑھی منڈوا کر عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں جو کہ باعث لعنت ہے، اس سے محفوظ رہنے کا یہی طریقہ ہے کہ داڑھی کو اپنی حالت پر رہنے دیا جائے اور اس کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔ ٭ داڑھی کی اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو ایرانی آئے جن کی داڑھیاں مونڈی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اظہار نفرت کرتے ہوئے انہیں دیکھنا گوارہ نہیں کیا ۔ بلکہ آپ نے فرمایا کہ مجھے تو
Flag Counter