Maktaba Wahhabi

372 - 452
دوسرے حضرات کی طرف سے مذکورہ دلائل کا بایں طور جواب دیا گیا ہے کہ آیت کی تفسیر میں جانوروں کو خصی کرنے کی بات کسی صحیح، ضعیف اور مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے۔جہاں تک سلف کے اقوال کا تعلق ہے تو اس کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ،حسن بصری، مجاہد،قتادہ اور سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ اس سے مراد اللہ کا دین ہے کہ وہ لوگ شیطان کے کہنے پر حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرائیں گےجیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز تفسیر میں ان اقوال کو نقل فرمایا ہے۔ [1] جب سلف صالحین سے آیت مذکورہ کی مختلف تفاسیر منقول ہیں تو اس کی تفسیر میں جانوروں کو خصی کرنے کی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ چونکہ اس کی تفسیر میں کوئی مرفوع حدیث موجود نہیں ، لہٰذا ’’ لا تبدیل لخلق اللّٰه ‘‘اللہ کے دین میں کوئی تبدیلی نہیں، اس کے پیش نظر آیت مذکورہ میں’’ خلق اللہ ‘‘ سے مراد اللہ کا دین ہی ہے جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔ [2] مسند امام احمد کے حوالے سے جو مرفوع حدیث بیان کی جاتی ہے وہ محدثین کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتی کیونکہ اس میں ایک راوی عبد اللہ بن نافع ضعیف ہے۔ اس کی تفصیل مسند احمد کے حاشیہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ [3] جب ہم علمائے متقدمین کو دیکھتے ہیں تو ان میں بیشتر حضرات جانوروں کو خصی کرنے کے قائل اور فاعل ہیں، چنانچہ حضرت بشیر کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اپنے دور حکومت میں خود مجھے حکم دیا تھا کہ میں ان کے خچر کو خصی کروں۔[4] حضرت طاؤس رحمہ اللہ نے اپنے اونٹ کو خصی کروایا تھا نیز عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر نر جانورکے کاٹنے یا اس کے نقصان کا اندیشہ ہو تو اسے خصی کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [5] ہشام بن عروہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ان کے والد عروہ بن زبیر نے اپنا ایک خچر خصی کرایا تھا۔[6] ا ن اقوال کے پیش نظر یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ کسی ضرورت کے پیش نظر جانور کو خصی کیا جا سکتا ہے لیکن بلا وجہ یہ عمل مکروہ اور نا پسندیدہ ہے جیسا کہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ جب کوئی واقعی ضرورت درپیش ہو تو جانور کو خصی کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے تابعین کرام سے یہ اقوال بیان کئے ہیں۔‘‘[7] مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی جانور کو قربانی کے لئے خصی کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کا گوشت عمدہ ہو جاتا ہے اور جن روایات میں امتناعی حکم ہے اسے ان جانوروں کے متعلق محمول کیا جائے جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا یا اس سے جانوروں کو بلاوجہ خصی کرنا مراد ہے۔ بہر حال خصی جانور کی قربانی بالکل جائز اور درست ہے کیونکہ خصی ہونا ان عیوب سے نہیں جو قربانی کےلئے رکاوٹ کا باعث ہیں۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: ’’ امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔ ‘‘[8]
Flag Counter