Maktaba Wahhabi

250 - 452
تمام شرکا ، شراکت کے تناسب سے تقسیم کر تے ہیں جبکہ بیمہ کمپنیاں ان منافع کو اپنے پاس رکھتی ہیں، صارف کو نہیں دیتیں۔ تکافل میں مدت پوری ہو نے کے بعد رقم واپس مل سکتی ہے جبکہ بیمہ کرانے والے کو اس کی جمع شدہ رقم پوری کی پوری واپس نہیں ہو تی ، اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک تجارتی معاہدہ ہے ، اس کی بنیاد محض تعاون نہیں ہے جیسا کہ باور کرایا جا تاہے کیونکہ تعاون کی نیت سے اگر کوئی ادائیگی کر تا ہے تو وہ مال اس کی ملکیت سے نکل جا تا ہے، اس کی واپسی کا مطالبہ کرنا یا اس پر نفع طلب کرنا انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :اپنے دیئے گئے عطیے میں لوٹنے والا ایسے ہے جیسے ایک کتا قے کرے پھر اسے چاٹ لے۔ ‘‘[1] جبکہ تکافل میں مدت پوری ہو نے کے بعد اور کسی قسم کا نقصان نہ ہو نے کی صورت میں وہ اپنا مال واپس لے سکتا ہے ، ایسے حالات میں اسے تعاون کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے رجحان کے مطابق تکافل میں غرر، سود اور جوا تینوں چیزیں موجود ہیں جن کی بنا پر اسے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ غرر اس طرح ہے کہ جس نقصان کے ازالہ کے لیے پالیسی ہولڈر نے پالیسی خریدی ہے وہ پیش ہی نہ آئے، اس طرح اس کی ادا کر دہ رقم ضائع ہو جائے اور یہ بھی احتما ل ہےکہ کوئی حادثہ پیش آ جائے پھر نقصان کی صورت میں اس کی تلافی کے لیے کمپنی کے ذمے اس کی ادائیگی لازم ہو جائے۔ تکافل میں شریک قسطیں ادا کر تاہے ، اگر اس کا نقصان ہو گیا تو تکافل کمپنی کی طرف سے اس کا طے شدہ معاوضہ دیاجا تا ہے جو ادا کر دہ قسطوں سے کہیں زیادہ ہو تاہے ، سود بھی اسی کا نام ہے کہ تبادلہ کی صورت میں ایک طرف سے زیادہ ادا کرنا، اسے ہم زیادتی کا سودکہتے ہیں۔ جو ااس طرح ہےکہ رقم جمع کرانے میں تمام افراد شریک ہیں لیکن ایک کو حادثہ پیش آتاہے تو تکافل کمپنی کی طرف سے اس کی تلافی کر دی جا تی ہے اور جس کو حادثہ پیش نہیں آتا اسے صرف اصل رقم ہی واپس ملتی ہے، یہ ایک طرح کا نقصان ہے اور جوا اسی کا نام ہے۔ اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ جن خرابیوں کی بنا پر بیمہ حرام ہے، موجودہ تکافل ان سے پاک نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں جن علماء کبار کے فتویٰ کا حوالہ دیا جا تاہے ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے سامنے جو صورت بیان کر کے فتویٰ لیا گیا ہے وہ موجود ہ تکافل سے قطعی مماثلت نہیں رکھتی۔ سعودی عرب کے علما کمیٹی نے اپنے حالیہ فتویٰ میں موجودہ تکافل کو حرام قرار دیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :’’گزشتہ کچھ عرصہ سے کچھ اداروں اور کمپنیوں کی طرف سے لو گوں کے سامنے معاملات کو خلط ملط کر نے اور حقائق کو الٹ پلٹ کر نے کا سلسلہ جاری ہے ، ان اداروں نے تجارتی بیمہ کو تعاونی بیمہ (تکافل) کا نام دیا ہوا ہے اور لو گوں کو دھوکہ دہی پھر خود کو سہارا دینے کے لیے اس کے جواز کو علما کمیٹی کی طرف منسوب کر تے ہیں جب کہ علما کمیٹی اس سے مکمل طور پر بری ہے۔ ہم نے پہلے ہی تجارتی بیمہ اور تعاونی بیمہ (تکافل ) کے درمیان فرق کو واضح کر دیا ہے لہٰذا نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی ، اسی لیے علما کمیٹی نے حقائق کو ظاہر کر نے اور عوام کو اس دھوکہ سے خبر دار کر نے کے لیے یہ فتویٰ جاری کیا ہے۔[2] خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک تکافل ایک غیر شرعی تجارتی معاہدہ ہے جسے تعاون کا لبادہ پہنا کر عوام کو پھانسنے کی کوشش کی
Flag Counter