Maktaba Wahhabi

415 - 545
لَايَنْبَغيِ لَهُ أَنْ يأْخُذَمِنْهُ شَيْئًاإلاَّبِحَضْرَةِ صَاحِبِ الْمَالِ."[1] ”اس شخص کے بارے میں جو دوسرے کو مضاربہ کی بنیاد پر مال دیتا ہے وہ اسے کام میں لاکر نفع حاصل کرتا ہے اب وہ یہ چاہتا ہے کہ رب المال (Investor) کی غیر موجودگی میں ہی نفع سے اپنا حصہ لے لے امام مالک نے فرمایا: جب تک مال کا مالک موجود نہ ہو اس کو یہ حق نہیں پہنچتا۔“ اگر بنظرغائر دیکھا جائے تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہر لحاظ سے عقلی میزان پر پوری اترتی ہے، کوئی دانشور اس سے اختلاف نہیں کر سکتا۔بات تو سیدھی سی ہے کہ جب رب المال (Investor) اور مضارب دونوں نفع میں شریک ہیں تو کیا اس کا فرض نہیں کہ وہ رب المال (Investor) کو اعتماد میں لے اور بتائے کہ میں نے یہ کاروبار کیا اتنا اخراجات آئے باقی یہ نفع ہے نہ کہ سب فیصلے خود ہی کر لے۔ 5۔ پیسہ لینے والا پیسہ لگانے والا دونوں کا عاقل ہونا ضروری ہے۔ 6۔جو رقم مضاربت کے لیے مقرر کی جائے وہ فوراً مضارب کے سپرد کردی جائے مثلاً رب المال (Investor)نے مضارب سے کہا کہ پانچ سو روپے میں دیتا ہوں اس سے تم تجارت کرو تو پانچ سو روپے کام کرنے والے کے قبضہ میں دے دینا ضرور ہیں، صرف وعدہ سے مضاربت نہیں ہوتی یعنی سرمایہ کارکن کےسپرد کر دیا جائے۔ 7۔سرمایہ کی مقدار متعین ہو اور مالک کے پاس موجود ہو۔ 8۔جتنی رقم سے کام شروع کرنے کا ارادہ ہو وہ اسی وقت بتادی جائے اگر مجہول رکھا تو مضاربت صحیح نہ ہوگی۔ 9۔معاملہ کی شرائط دونوں کے دستخطوں کے ساتھ تحریری طور پر دونوں کے پاس
Flag Counter