Maktaba Wahhabi

206 - 545
سٹہ بازی (Speculation) سٹّہ باز عموماً بڑے بڑے سیٹھ اور تاجر قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دفتروں میں بیٹھ کر ٹیلیفون کے ذریعہ ہی یہ کاروبار چلاتے ہیں سٹہ باز کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی جنس یا چیز کا انتخاب کرتا ہے جس کی ملک میں قلّت ہو یا اس کے نایاب ہوجانے کا امکان ہو مثلاً ایک صاحب یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ آجکل چینی کا بھاؤ 3000 روپے فی من ہے اور تین ماہ تک اس کا بھاؤ 3500 روپے من ہوجائے گا،وہ کسی مل یا فیکٹری کے مالک ٹیلیفون کرتا ہے کہ مجھے تین ماہ تک ایک ہزار من چینی درکا ر ہے بتاؤ کس بھاؤ پرمہیا کرسکتے ہو فیکٹری کا مالک اتنے تھوک کے سودے کو موجودہ نرخ پر مہیا کردینا بھی بہت غنیمت سمجھتا ہے تاہم موجودہ ریٹ سے بھی کم پر عموماً سودا ہوجاتا ہے فرض کرلیجئے کہ ۔/2090 روپے فی من کے حساب سے ایک ہزار من کا سودا تین ماہ تک کی مدّت کے لیے طے پایا،خریدار 15 یا 20 فیصد کے لگ بھگ رقم بطور بیعانہ فوری طور پر ادا کردیتا ہے یا جتنی رقم ان میں باہمی سمجھوتے سے طے پاجائے مشتری ادا کردیتا ہے اور اتنی مدت میں بائع کی ذمہ داری ہے کہ وہ پورا مال تیار کرکے یا بازار سے اکٹھا کرکے مشتری کو دے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ دوسرے ضرورت مند لوگ اوردکاندار بھی اس فیکٹری کے مالک سے اس چیز کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن وہ بیچ نہیں سکتا اسے تو یہ فکر ہوتی ہے کہ اپنا آرڈر وقت پر بھگتائے دوسرا اس چیز کا اسی وجہ سے بھاؤ بھی بڑھ جاتاہے مثلاً /3500 روپے من ہوجاتا ہے بائع مشتری سے خود کہنے لگتا ہے کہ اپنا سودا چھوڑدو اور 20 روپے من مجھ سے منافع لے لو،لیکن سیٹھ صاحب یہ جواب دیتے ہیں کہ میں تو اپنا مال/4000روپے سے کم پر ہرگز فروخت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اسی سودا بازی
Flag Counter